Read Online
“بابا آج تاریخ کیا ہے ؟”رجسٹر پر تیزی سے ہاتھ چلا کر کچھ لکھتی اریج نے سوال کیا تھا۔ وہیل چیئر پر بیٹھے قاسم صاحب نے رخ موڑ کر اس کی طرف دیکھا تھا جو صوفے پر گود بنا کر اپنے چاروں طرف کتابیں پھیلائے بیٹھی تھی۔ ایک دھیمی سی مسکراہٹ نے ان کے چہرے کا احاطہ کیا تھا۔ مسکرانے پر ان کے چہرے پر ایک وقار طاری ہوتا تھا جو ان کی شخصیت میں نکھار لاتا تھا۔
“چچ چچ۔ بڈھی ہوگئی ہے اریج۔ ” ان کے شرارتی انداز میں کہنے کی دیر تھی کہ اریج نے جھٹ سے سر اوپر کو اٹھایا تھا۔
“کل چودہ اگست ہے۔ ” تاسف سے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے وہ کھسیانے انداز میں ہنسی تھی۔
“یقیناً تم نے کوئی سپیچ تیار نہیں کی ہوگی؟” کالج میں چودہ آگست کے متعلق ہونے والی تقریب کے حوالے سے انھوں نے سوال کیا تھا۔
“آپ سے کچھ انفارمیشن نکلوانی تھی۔ پہلے میرے سوالوں کے جواب دے دیں تو پھر میں سپیچ بھی منٹوں میں لکھ لوں گی۔ ” ساری کتابیں جلدی سے سمیٹ کر اس نے اپنے دائیں جانب پڑے بیگ میں گھسائیں تھیں۔ ایک رجسٹر اور ہاتھ میں پین لیے وہ مکمل طور پر ان کی طرف گھومی تھی۔
“ہاں جی، رپورٹر صاحبہ پوچھیں۔ ” ریموٹ سے اپنی ویک کرسی کا رخ بدلتے انھوں نے مسکراتے ہوئے اسے ایک نیا نام دیا تھا۔
“ہر دوسرے طالب علم کو تاریخ کے مضمون سے خوف کیوں آتا ہے ؟ مطلب کہ یہ ان کا پسندیدہ مضمون کیوں نہیں ہوتا؟” اپنا سوال رجسٹر پر تیزی سے نوٹ کرنے کے بعد وہ منتظر نظروں سے اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی۔ جو ہمیشہ کی طرح اس کے سوال میں الجھے تھے اور سوچ میں پڑ گئے تھے۔
“اگر تو ہم الزام استادوں پر دھرے بغیر اس بات کا معائنہ کریں تو دو نتیجے نکلتے ہیں پہلا یہ کہ ہم ڈرپوک ہیں۔ ہمیں خوف آتا ہے اس تاریخ کو پڑھنے سے جس میں ہمیں یہ بتایا جائے کہ دریائے فرات کا پانی مہینوں تک لوگوں کے بہائے جانے والے خون کے باعث سرخ رہا تھا۔ ہمیں شرمندگی ہوتی ہے اس تاریخ کو پڑھ کر جس میں بتایا جائے کہ انگریزوں نے ایک صدی تک اس خطے پر حکمرانی کی ہے جہاں پر آج ہم آزادانہ سانس لے رہے ہیں۔ ہمیں خوف آتا ہے اس تاریخ کو پڑھ کر جس میں ہمیں بتایا جائے کہ ہندوؤں اور انگریزوں نے ایک ساتھ مل کر مسلمانوں کے گھروں کو جلایا، ان پر پانی بند کر دیا، انھیں بے آبرو کر دیا۔ ” وہ سانس لینے کو رکے تھے۔ اریج یوں ہی گم صم سے انداز میں اپنے باپ کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ ” دوسرا اکثر بچے یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ، انھیں سن یاد نہیں رہتے وہ کنفیوژ ہوجاتے ہیں، تو میرے نزدیک یہ کوئی معقول جواز نہیں ہے۔ جس رب نے سائنسی مضامین پڑھنے کے لیے عقل دی ہے تو تاریخ کا مطالعہ کرنے کے لیے کسی دکان سے عقل خریدنے کی کیا ضرورت ہے اسی عقل کو استعمال کرلو۔ ” ان کی آخری بات پر اریج نے اپنی مسکراہٹ بڑی مشکل سے روکی تھی۔ ان ساری باتوں سے دو تین اہم باتیں نکال کر رجسٹر پر لکھ کر وہ دوبارہ سیدھی ہوئی تھی۔
“کیا غم کی شدت میں وقت کے ساتھ کمی آتی ہے یا ہر نئے سال اس تاریخ پر غم ہرے ہو جاتے ہیں؟” اس نئے عجیب و غریب سوال پر وہ ناسمجھی سے چند لمحوں کے لیے اس کا چہرہ کھوجتے رہے، جس کی سرخ و سفید رنگت پر صاف لکھا تھا کہ اسے جواب ہر حال میں چاہیے۔
“وقت کے ساتھ کمی بھی آجاتی ہے، مگر ہر نئے سال اس تاریخ پر غم ہرا بھی ہو جائے تو وہ شدت پھر بھی نہیں ہوتی۔ زخم تازہ ہو تو انسان چاہتا ہے کہ ہر انسان اس کے ساتھ روئے اور جو نہیں روتا وہ بےحس کا لقب پاتا ہے، مگر اگر بھرتا ہوا زخم ہرا ہو جائے تو انسان کو مطلق پروا نہیں ہوتی کہ اس کی آنکھوں کی نمی نے کتنوں کی آنکھوں میں نمی گھولی ہے۔ اس لیے وہ کسی کو بے حس ہونے کا لقب نہیں دیتا، مگر جو شخص اس کی وجہ بنتا ہے وہ ظالم ضرور کہلاتا ہے۔ ” وہ جانتے تھے اس بات کو ہضم کرنے میں اسے ذرا وقت لگے گا۔ انھوں نے تھوڑا سا وقفہ دیا تھا۔ ساتھ ہی وہ اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ بغور دیکھ رہے تھے۔
“بس یہی سوال پوچھنے تھے۔” وہ انھیں دیکھ کر مسکرائی تھی۔ پین کو رجسٹر میں رکھ کر اس نے سائیڈ پر رکھ دیا تھا۔
“ان دونوں سوالوں کا کوئی ربط نظر نہیں آیا تمھاری کل کی سپیچ سے ؟” حیرت کا مجسمہ بنے قاسم صاحب نے آخر کار لفظوں کا سہارا لے ہی لیا تھا۔
“مسٹر کتب خانہ! آپ کی بیٹی کل کی تقریر میں ان دو باتوں کو استعمال کرنے والی ہے۔ ” مسکرا کر چمکتی ہوئی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اس نے “رپورٹر صاحبہ” والا حساب برابر کیا تھا۔
قاسم صاحب کا زندگی سے بھرپور قہقہہ لاؤنج میں گونجا تھا۔
شہر میں قطرہ قطرہ پھیلتا اندھیرا اس بات کا گواہ تھا کہ ایک اور دن اپنے اختتام کو پہنچا ہر حسین دن کی طرح۔
✩=========✩=========✩
شہر پر چھایا رات کا اندھیرا اب سونے کی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ ہر گھر میں چھوٹے ادھر ادھر دوڑتے سبز و سفید جھنڈیوں سے گھروں کو سجا رہے تھے۔ کوئی بیٹھا ملّی نغمے گا رہا تھا۔ دور کہیں کسی نے فل والیوم میں قومی ترانہ چلایا ہوا تھا جس پر حبّ الوطن عوام کے دل دھڑک اٹھتے تھے۔ کہیں کوئی بچہ ناشتا کرتے باپ سے اپنی فرمائشیں کر رہا تھا۔ تو کہیں ماں اپنے بچوں کے کپڑوں پر چھوٹا سا جھنڈا بروچ کی صورت لگا رہی تھی۔
ٹولیوں کی صورت بچے جن کے لباس کا رنگ ہاتھ میں پکڑے جھنڈے میں ملتا جلتا تھا گلیوں میں بھاگتے ہوئے “پاکستان زندہ باد” کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ کہیں گھروں میں بیٹھے بزرگ صبح صبح خبر چینل کھولے بیٹھے تھے تو وہیں آج ہر دن کی طرح کچھ عورتیں چولہے کے ساتھ کھڑیں روٹیاں بنا رہی تھیں۔ غرض ہر گھر میں ہلچل معمول سے زیادہ تھی۔
قاسم صاحب کے گھر میں ناشتہ کیا جا چکا تھا۔ ادریس کی کال نے سب کے چہروں پر خوشی کے ساتھ ساتھ سوگواریت بھی پھیلا دی تھی۔ یونی فارم میں ملبوس اریج اس وقت کریڈل تھامے بھائی سے بات کر رہی تھی۔ وقفے وقفے سے اس کے چہرے کی مسکراہٹ بڑھتی جاتی تھی۔
قاسم صاحب نے ایک نظر دیوار پر ڈالی تھی جہاں ان کے تین بیٹوں کی تصویریں تھیں۔ دو بیٹوں کو وہ وطن کی خاطر قربان کر چکے تھے۔ اب ان کی یاد میں ان کی آنکھوں میں نمی کے ساتھ ساتھ تفاخر کا ایک احساس سر اٹھاتا تھا۔
“تقریر ہر بار کی طرح حبّ الوطنی پر ہی ہوگی۔ نجانے مجھے اور کوئی موضوع کیوں نہیں سوجھتا۔” اریج نے جواب تو فون کے پار بیٹھے بھائی کو دیا تھا، مگر نظریں باپ کی طرف تھیں جو اس کی بات سن دھیما سا مسکرائے تھے۔
“ہاں یہ تو سچ ہے کہ یہ محبت میرے خون میں آپ لوگوں کی وجہ سے ہے۔ ” اس کے انداز میں ایک فخر تھا ایک جزبہ تھا۔ آنکھوں میں چمک واضح ہوئی تھی۔
“اچھا ٹھیک ہے میں چلتی ہوں اب۔ پھر بات ہوگی۔ ” الوداعی جملے کہنے کے بعد اس نے فون واپس کریڈل پر رکھ دیا تھا۔ تب تک مسز قاسم بھی ریڈی ہو کر آ گئی تھیں۔ وہ انھیں دیکھ کر باپ کے دونوں گال چومتی باہر کی طرف چلی گئی یہ دیکھنے کے لیے کہ ملازم نے گاڑی گیراج سے نکال دی ہے کہ نہیں۔
” سامعیہ۔ اس کی تقریر ریکارڈ کر کے لانا۔ میں پر تجسس ہوں اس بارے میں۔ ” داخلی دروازے کی طرف دیکھتے انھوں نے بیوی سے کہا تھا۔
” آپ کو تجسس کب نہیں ہوتا؟ جانتی ہوں ہر بار کی طرح اس بار بھی ریکارڈ کر کے لانی ہے۔” انھیں اپنے شوہر کی بیٹی سے محبت دیکھ کر رشک آتا تھا۔
” ہاں، لیکن اس بار کچھ زیادہ تجسس میں ہوں۔ ” وہ بیوی کی بات سن کر مسکرائے تھے۔ سامیہ نے کھکھلا کر ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر، انھیں یقین دہانی کروائی تھی۔ اریج کی پکار پر وہ پرس سنبھالتی اٹھ کھڑی ہوئیں تھیں۔ قاسم صاحب نے مسکرا کر انھیں جانے کی اجازت دی تھی۔
ٹھیک دو منٹ بعد سفید رنگ کی کرولا کار قاسم ہاوس کے مرکزی دروازہ سے باہر نکلتی دکھائی دی تھی جس میں ڈرائیونگ سیٹ پر مسز قاسم بیٹھیں تھیں اور ان کے ساتھ اریج تھی۔
اسکول کی عمارت کے سامنے کار روک کر مسز قاسم نے ہاتھ میں پہنی سنہری رنگ کی گھڑی پر نظر ڈالی تھی۔ تقریب شروع ہونے میں بس دس سے پندرہ منٹ رہتے تھے۔
“چلیں ماما جلدی کریں۔ ” اریج کے کہنے پر وہ سر کو اثبات میں ہلاتی گاڑی سے باہر نکلی تھیں۔ اریج کے ساتھ ساتھ چلتے انھوں نے ہال کی طرف جاتی سڑک پر قدم رکھا تھا۔
تھوڑا سا آگے چلنے پر اریج نے ہمیشہ کی طرح پرنسپل کے دفتر کی طرف دیکھتے ایک ٹھنڈی آہ خارج کی تھی۔ یادوں کے خزانے سے چند پل چمچائے تھے۔ ہر سال چودہ اگست کے موقع پر ان کی پرنسپل فہمیدہ بچوں سے پہلے ہال کے میں موجود ہوتی تھیں۔ ٹیچرز کے ساتھ مل کر وہ سب کا نا صرف استقبال کیا کرتی تھیں، بلکہ انتظامات بھی ساتھ ساتھ دیکھتی رہتی تھی۔ ان کے مزاج کی شگفتگی اور شائستگی ہمیشہ سے ہی اریج کو بہت پسند تھی۔
اپنے کندھے پر کسی کا لمس محسوس کرتے وہ چونکی تھی۔ مسز قاسم نے اسے مسکرانے کا اشارہ کیا تو وہ بے دلی سے مسکرائی تھی، مگر میم فہمیدہ کی یادوں سے جان نہیں چھڑا پائی تھی۔
سوچوں کے گرداب سے خود کو نکالتی وہ ہال میں داخل ہوئی تو اس کی طائرانہ نظروں نے چند چہرے تلاشنے کے لیے پورے ہال کا جائزہ لیا تھا۔
✩=========✩=========✩
تقریر میں اس کا دسواں نمبر تھا۔ اس سے پہلے کئی ٹیچروں نے طالبات سے خطاب کیا تھا۔ ہال میں ہر طرف لہراتے جھنڈے جوش کو مزید بڑھا رہے تھے۔ والدین کے لیے ایک طرف کو کرسیاں لگائی گئی تھیں۔ مسز قاسم کے ساتھ خوش قسمتی سے مسز صبا آ کر بیٹھی تھیں۔ ان سے مل کر، انھیں اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ آج بھی پرانے کسی لمحے کے قید میں ہیں۔ آنکھوں کے گرد ہلکے ، نم آنکھیں، درد سے چور مسکراہٹ ان کے دل کا حال بیان کر گئی تھیں۔
اس سے پہلے کہ دونوں خواتین آپس میں گفتگو کا آغاز کرتیں اسٹیج پر کھڑی لڑکی نے اریج کے آنے کا اعلان کیا تھا جس پر وہ دونوں مسکراتے ہوئے سیدھی ہوئیں تھیں۔ مسز قاسم نے نا محسوس انداز میں پرس سے موبائل نکال کر وائس ریکارڈر آن کیا تھا ۔
ابتدائی جملے بولنے کے بعد وہ ذرا دیر کو خاموش ہوئی تھی۔ سارا ہال اس کی تقریر سننے کو بے تاب تھا کیوں کہ وہ ہمیشہ بات کو ایک الگ انداز میں سمجھایا کرتی تھی۔
“جیسا کہ آپ کو ابھی ہماری قابل میم طلعت نے بتایا کہ ہمارے ملک میں حب الوطنی کا جزبہ اب کم ہوتا جا رہا ہے۔ اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ بے روزگاری بھی ہے، مگر ایک وجہ میرے پاس بھی ہے جو شاید آپ کے ذہن میں تو آئی ہوگی، مگر آپ نے اس بارے میں کبھی سوچا نہیں ہوگا۔ ” ٹھہر ٹھہر کر وہ پورے ہال میں نظر دوڑاتے ہوئے بول رہی تھی۔ سپیکر سے گونجنے کے باعث آواز ایک الگ ردھم پیدا کر رہی تھی۔ وہ لڑکیاں جو پہلے آپس میں باتیں کر رہی تھیں اب متوجہ ہوئیں تھیں۔
“اور کیوں کہ ہم سب سٹوڈنٹس ہیں۔ ” لڑکیوں کی قطارر کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے وقفہ دیا تھا ” تو ہم ہر چیز کو اپنی پڑھائی سے جوڑتے ہیں۔ اور یہ تو ہر دل کی آواز ہے کہ “مطالعہ پاکستان بہت مشکل سبجیکٹ ہے ” کیوں ایسا ہی ہے نا؟ ہو سکتا ہے کسی کو پسند بھی ہو لیکن اکثریت کو یہ مضمون پسند نہیں ہوتا۔ ” اب وہ اصل مقصد کی طرف آ رہی تھی۔ مطالعہ پاکستان کے ذکر پر لڑکیوں کے بگڑتے تاثرات پر اس نے بمشکل ہنسی روکی تھی۔
“تاریخ یا مطالعہ پاکستان یہ وہ مضمون ہیں جن سے انسان دور بھاگتا ہے اور یہی وہ مضمون ہے جو آپ کو حب الوطنی سکھاتے ہیں۔ ” اس کی آواز قدرے اونچی ہوئی تھی۔ سٹیج کے دائیں جانب بیٹھی ٹیچروں نے کمر کو کرسیوں سے ٹکاتے ہوئے اس کو بغور سنا تھا۔ مسز قاسم دھیما سا مسکرائی تھیں۔
“ایک مثال لیتے ہیں۔ سوری میری تقریر تقریر کم اور لیکچر زیادہ بنتی جا رہی ہے، مگر کیا کر سکتے ہیں۔ ” اس نے مسکرا کر کہا تھا۔ کئی چہروں پر اس کی مسکراہٹ دیکھ کر مسکراہٹ بکھری تھی۔
“جب ہمارا کوئی “اپنا” ہمیں چھوڑ جائے تو ہم سالوں تک بے جان چیزوں میں اس کا عکس ڈھونڈتے ہیں۔ وہ راستے جن پر وہ لوگ چلیں ہوتے ہوتے ہیں وہ یاد دلاتے ہیں ہمیں کہ ان پر سے گزرتے ہوئے ان کی چال ڈھال ایسی تھی۔ وہ دیواریں ہمیں بتاتی ہیں جن پر ان کی انگلیوں کا نقش ہو کہ ان کا لمس کیسا تھا۔ اسی طرح یہ مضمون ہمیں بتاتے ہیں، کیا بھلا؟” وہ رک کر چہرے کے تاثرات دیکھنے لگی۔ سب اس کے بولنے کے منتظر تھے۔
“یہ مضمون ہمیں بتاتے ہیں کہ مسلمانوں پر ایک صدی کی غلامی کتنی بھاری تھی۔ یہ مضمون ہمیں بتاتے ہیں کہ کتنوں کا خون بہا تو آج یہ سرزمین ہماری ہوئی ہے۔ یہ مضمون ہمیں حبّ الوطنی سکھاتے ہیں۔ “اس کی آنکھوں کی چمک اس کی آواز کی طرح بڑھی تھی۔ اس کے خاموش ہونے پر نجانے کتنوں نے اپنی رکی ہوئی سانسیں بحال کی تھی اور نجانے کتنوں کے دل نے سوچا تھا کہ “ہاں ہم نے تو یہ سوچا ہی نہیں۔ “۔
“یہ آپ کو بتاتے ہیں کہ بے روزگاری وطن سے نفرت نہیں کروا سکتی اگر آپ اصل حبّ الوطن ہیں۔ اگر تو ایسا ہوتا تو وہ مسلمان جن کو آسمان سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا گیا تھا جن کی جائیدادیں ضبط کر لی گئی تھیں نوکریاں چھوڑنے پر جن کو مجبور کیا گیا تھا ان کی نسلیں یہاں نہ ہوتیں۔ ” ہاتھ کو ہوا میں لہراتے ہوئے وہ چاروں طرف نظر دوڑاتے ہوئے جب بول کر خاموش ہوئی تو ہال تالیوں سے گونجا تھا۔
“اگر حادثے، دھماکے یہ ملک چھوڑنے کی وجہ ہیں تو وہ لوگ بھی تو تھے جن کو سنگسار کیا گیا تھا، جن کو جلایا گیا تھا، جن کو بے آبرو کیا گیا تھا، مگر وہ تو نہیں ہٹے اپنے مقصد سے اور ان کے مقصد سے پیچھے نا ہٹنے کہ زندہ مثال “پاکستان” کا وجود ہے۔ ” اس کی آخری بات کو مسز قاسم کے ساتھ بیٹھی مسز صبا نے محسوس کیا تھا۔ ان کی بیٹی کو بے آبرو کیا گیا تھا۔ کئی لوگوں نے ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا، مگر اپنوں سے دور تو انسان کا نا صرف جسم، بلکہ دل بھی مر جاتا ہے۔ ساتھ بیٹھی مسز قاسم کا ہاتھ دباتے وہ نم آنکھوں سے ان کی طرف دیکھ کر مسکرائی تھیں۔ یہ اشارہ تھا ان کی تربیت پر رشک کے اظہار کا اور مسز قاسم اس اشارہ کو پا کر مسکرائی تھیں۔
“اگر حکمران وجہ ہیں کہ یہ ملک کا نظام صحیح نہیں ہے چلو چلو کسی اور ملک چلتے ہیں۔ ” اس نے نقل اتارنے کے انداز میں اپنی آواز بدلی تھی۔ سب نے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکی تھی۔ “تو بھئی مسلمانوں نے تو ایک صدی غیر مسلموں کی حکمرانی کو برداشت کیا۔ وہ لوگ تو نہیں تھکے، بلکہ انھوں نے خود کو ابھارا تھا۔ اس سچ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محبت حالات سے نہیں بدلتی، محبت ہمیشہ محبت رہتی ہے۔ آپ کوئی جواز، کوئی دلیل، کوئی ثبوت لے آئیں کچھ معنی نہیں رکھتا۔ آپ کو اپنے ملک سے محبت ہے، بس آگے full stop ہے۔ بات ختم۔ کسی چیز کی گنجائش نہیں ہے۔ ” تالیوں کی گونج نے اس کے کانوں میں سرگوشی کی تھی کہ ہاں تمھارا کہا اثر کر رہا ہے۔
“اور آپ نے وہ لوگ بھی دیکھیں ہوں گے جو یہ کہتے ہیں کہ “اس ملک نے ہم سے ہمارا سب کچھ چھین لیا” وہ براہ راست پورے ملک کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔ اور اگر وہ لوگ اس بات کا لفظوں سے اظہار نا کریں تو ممکن ہے کہ وہ لوگ ان لوگوں کی صف میں شامل ہو جائیں جو ملک کی ساکھ کو تباہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگ خود کو دماغی طور پر ٹراماٹائزڈ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ وہ لوگ بھی اس دنیا میں موجود ہیں جنھوں نے اس سے زیادہ غم برداشت کیا ہو۔ان لوگوں کو باغیوں کی قطار میں آپ کبھی نہیں دیکھیں گے۔یہ ان کی حب الوطنی ہے یہ محبت ہے ان کی اس مٹی سے۔ یہ وفا ہے۔۔” اس کے پاس وقت کم تھا باتیں بہت ساری۔اس لئے وہ گفتگو کو لپیٹ رہی تھی۔
“دو سال پہلے چودہ اگست کو مجھے تین خبریں ایک ساتھ ملیں اور تینوں ہی بری خبریں تھیں۔ آپ سب جانتے ہوں گے کہ ہمارے کالج کے ساتھ کتنا بڑا حادثہ ہوا تھا۔ ہمارے کالج کی بس جس میں میری دوستیں، کالج فیلوز، ٹیچرز اور پرنسپل تھیں وہ ایک ہفتے لاپتہ رہنے کے بعد ہمیں ملی تھی۔ جس میں موجود ہمارے پیارے اپنی جان کی بازی کھو چکے تھے۔ میرے دو بھائی اس دن کو شہید ہوئے تھے۔ میرے باپ نے اپنی ٹانگیں کھو دیں۔ کیا یہ باتیں مجھے اپنے ملک پاکستان کے خلاف کر سکتی ہیں۔ کیا میں یہ شکوہ کرنے کا حق رکھتی ہوں کہ وہ بس اگر امریکہ میں چل رہی ہوتی تو آج ان سب لڑکیوں اور ٹیچرز کو بے آبرو نا ہونا پڑتا ان کی جان نا جاتی۔ کیا میں یہ کہنے کا حق رکھتی ہوں کہ اگر میرے بھائی پاکستان فوج کا حصہ نہ ہوتے تو آج وہ زندہ ہوتے. نہیں۔ بالکل بھی نہیں!” اس کی آواز جو اس سارے عرصے میں مضبوط رہی تھی اب لڑکھڑائی تھی۔ وہ یقیناً تکلیف دہ تھا۔ سر کو جھکا کر اس نے انگلی سے اپنی آنکھ کا نم کونا صاف کیا تھا۔ خود کو کمپوز کرتے ہوئے اس نے سر کو دوبارہ اٹھا کر ہال کے چاروں طرف دیکھا تھا۔
“اللہ کسی انسان کو اس کی برداشت سے زیادہ تلکیف نہیں دیتے۔ اسی طرح ہم سب صرف تین دن تک غم کی شدت سے لڑتے ہیں۔ صرف تین دن وہ درد ہمیں اندر ہی اندر کھاتا اور پھر ہم واپس اپنے ٹریک پر آ جاتے ہیں۔ تو ان لوگوں کی سائیکی کیا ہوتی ہے جو سالہا سال دنگے فسادات کرتے ہیں۔ پاکستان پر کیچڑ اٹھاتے ہیں۔ وہ لوگ جاہلوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ کیوں۔۔۔۔ کیوں کہ وہ واقف نہیں ہیں کہ کتنوں نے قربانیاں دی ہیں اس ملک کے لئے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ ملک یہ وطن ہم سے ہے۔ جیسا ہم اس کو کریں گے یہ ویسا ہی ہو جائے گا۔ ہم خون بہائیں گے تو یہ سرخ ہو جائے گا۔ ہم امن پھیلائیں گے تو یہ سر سبز ہو جائے گا۔ یہ وطن ہماری ذمہ داری ہے۔ تعلیم ہمیں یہ شعور دیتی ہے کہ وطن کتنا اہم ہے۔ تاریخ بھری پڑی ہے ان لوگوں سے جو زمین کے ایک ٹکڑے کے لئے کٹ مرے جہاں وہ سکون کا سانس لے سکیں۔ تاریخ بھری پڑی ہے ان لوگوں سے کہ جن کی جان غلامی کی بھاری زنجیروں کی وجہ سے چلی گئی۔ تاریخ بھری پڑی ہے ان لوگوں سے جنہوں نے بغاوت کی۔۔۔۔ اس لئے نہیں کہ وطن کو تباہ کر سکیں بلکہ اس لئے کہ وہ اس کو پا سکیں۔” اس کی للکار سب کے رونگٹے کھڑے کر رہی تھی۔
“ایک شخص گیا ترکی۔۔۔۔ تو اس نے وہاں ایک ترک سے پوچھا کہ “تم لوگوں کو غصہ کیوں نہیں آتا؟” تو اس ترک نے ایک ایسا جواب دیا جو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس ترک نے جواب دیا “بھائی! ہم نے کبھی غلامی نہیں دیکھی۔ غصہ، بغض اور عداوت یہ سب غلاموں میں ہوتا ہے۔ یہ ان کی فطرت میں گھل جاتا ہے۔” وہ لوگ آج بھی غلام ہیں جو وطن کے خلاف زہر بکتے ہیں۔ وہ لوگ آج بھی غلام ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے اور ہمارا ملک ایک دن امن کا گہوارا بن کر پوری دنیا میں اپنے جھنڈے گاڑھے گا۔”وہ سانس لینے کو رکی تھی۔ ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ سٹیج پر پیچھے کی جانب بیٹھی ٹیچرز ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کے خیالات سے محو حیرت تھیں۔
“میں بس آخر میں دو باتوں کہوں گی۔ پہلی تو یہ کہ تاریخ اور مطالعہ پاکستان کا مطالعہ دل سے کریں یہ آپ کو اپنے وطن سے محبت کروائیں گی۔ اور دوسرا یہ کہ میں بھی آپ لوگوں کی طرح انسان ہی ہوں۔” بازو لمبا کرکے اس نے ہال میں بیٹھی لڑکیوں اور ان کے والدین کی طرف اشارہ کیا تھا۔ “انسان کے بس میں اللہ نے کچھ نہیں رکھا۔ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ہر انسان کی ایک ایک رگ میں حب الوطنی کا انجیکشن لگاتی تاکہ انہیں یہ احساس ہو سکے کہ وطن کسی باؤنڈری کا نام نہیں ہے، یہ ایک احساس کا نام ہے۔ یہ محبت اور وفا کا نام ہے۔” اس سے پہلے کے وہ اپنی بات کو آگے بڑھاتی لڑکیوں نے تالیاں بجاتے ذرا دیر کو وقفہ دیا تھا۔ وہ اپنے ازلی انداز میں مسکرائی تھی۔
“شکریہ ! آپ سب کا۔ یہاں آنے کے لئے بھی اور اس تقریب میں حصہ لینے کے لئے بھی۔” تالیوں کی گونج میں وہ سٹیج کے پیچھے غائب ہوئی تھی۔
سٹیج کے پیچھے بنے لمبے سے کمرے میں رکھی ایک خالی بینچ پر وہ گرنے کے سے انداز میں بیٹھی تھی۔ دو منٹ تک خود کو ریلیکس کرتے ہوئے اس نے کسی کے تیز تیز چلتے قدموں کی آواز سنی تھی۔ کالی سینڈل میں مقید پاؤں جب اس کے قریب رکے تو اس کو سر اٹھانا پڑا۔ سامنے مشعل کھڑی تھی، وہ شاید بھاگ کر آئی تھی۔ اریج مسکراتے ہوئے کھڑی ہوئی تھی۔
“آپی! مزہ آ گیا۔” اریج کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔ پہلے یہ جملہ امامہ بولتی تھی۔ اور یہ جملہ مشعل کے منہ سے سن کر بھی اسے ویسی ہی خوشی ہوئی تھی۔ اس کو گلے لگاتے ہوئے اریج نے شکریہ ادا کیا تھا۔
✩=========✩=========✩
“اریج ادھر آؤ ۔” تقریب ختم ہو چکی تھی۔ اریج، مشعل اور اس کے گروپ کے ساتھ کسی ٹیچر سے ملنے کے لئے جا رہی تھی جب اسے مسز قاسم نے بلایا تھا۔ ان کے ساتھ بیٹھی مسز صبا نے اریج کو ان کی طرف بڑھتے دیکھا تھا۔ جب کہ مشعل لوگ آگے بڑھ گئے تھے۔
“اسلام علیکم! آنٹی کیسی ہیں آپ ؟” مسز صبا کو سلام کر کے وہ ان کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔
“وعلیکم السلام! میں ٹھیک ہوں بچے.” انہوں نے بدلے میں مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا
“تمہارے بابا اکیلے ہیں گھر پر۔ چلیں؟” مسز قاسم کے مسکرا پر پوچھنے پر اس نے سر کو تیزی سے اثبات میں ہلایا تھا۔ الوداعی کلمات کہتے وہ دونوں ماں بیٹی گیٹ کی طرف بڑھ گئیں تھیں۔ مسز صبا کی نظر مسکرا کر ماں کا بازو تھام کر کچھ کہتی اریج پر تھیں۔
“آج امامہ بھی اس کے جتنی ہوتی.” وہ انکی بیٹی کی ہم عمر تھی۔ اور ان کی بیٹی جس کی بے آبرو لاش انہیں ملی تھی اس کا درد بہت بڑا تھا۔انہوں نے مشعل کو اپنے طرف آتے دیکھا تھا۔ مسکراتی امامہ اور تقریر کرتی اریج کا چہرہ ان کی بصارت میں دھندلایا تھا۔ واضح تھا تو وہ ایک ہی چہرہ تھا جو مشعل کا تھا۔ جو ان کا آخری سہارا تھی۔ ایک آخری فخر!
✩=========✩=========✩
“ماما آپ نے میری تقریر ریکارڈ کی؟” سیٹ بیلٹ لگاتے اریج نے سوال کیا تھا۔ مسز قاسم اس کا سوال سن مبہم انداز میں مسکرائی تھیں۔
“بابا کو مجھ پہ فخر ہونا چاہیے۔” فرضی کالر اوپر کو کرتے اس نے سامنے روڈ پر نظریں ٹکاتے کہا تھا۔
“وہ کرتے ہیں ۔۔۔ تم ان کا پہلا فخر ہو۔” ایک ہاتھ سے سٹیرنگ وہیل تھامتے انہوں نے دوسرا ہاتھ اس کے سر پر رکھا تھا۔
“آخر کو ان کا چوتھا بیٹا جو ہوں میں۔” مسز قاسم کو اس بات سے کوئی اختلاف نہیں ہوا تھا۔ جب سے قاسم صاحب ٹانگوں سے محروم ہوئے تھے وہ ان کا بیٹا بن گئی تھی۔اس نے باپ کو محسوس نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ ٹانگوں سے محروم ہو چکے ہیں۔
“تو پھر گھر جا کر کیا خیال ہے کوئی پلان کریں پھر۔” ان کے استفسار کرنے پر اریج تھوڑی کے نیچے ہاتھ ٹکاتے کچھ سوچنے لگی تھی۔
“نہیں آج کا سارا دن گھر ۔۔۔۔۔ رات کو چاچو لوگوں کو بلا کر دعوت رکھ لیتے ہیں۔ بابا بھی کب سے نہیں ملے ان سے۔” کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھتے اریج نے ماں کو جواب دیا تھا۔ نظریں ان لوگوں کا تعاقب کر رہی تھیں جو بائیک پر سبز جھنڈا لگائے ٹولیوں کی صورت میں آگے بڑھ رہے تھے۔ کہیں کہیں بچے دائرہ کی صورت میں کھڑے پٹاخے بجا رہے تھے۔ سبر ہلال سے جمگاتا پاکستان اریج کو سکون دے رہا تھا۔
✩=========✩=========✩
مسز قاسم نے اریج کی خواہش اور شوہر کی رضامندی کے مطابق بڑے دیور کو گھر پر دعوت دی تھی جس کی تیاریوں کے لئے وہ اب کچن میں موجود تھیں۔ مسٹر قاسم بیوی کا موبائل لئے بیٹی کی تقریر سن رہے تھے مگر چہرے کے تاثرات اس بات میں فرق کرنے میں ناکام رہے تھے کہ آیا وہ خوش بھی ہیں یا نہیں۔ گلی سے اٹھنے والا پٹاخوں کا شور کبھی اتنا تیز ہوتا کہ دل بھی کانپ جاتے تھے۔ مگر کسی کے ماتھے پر شکن نا آئی تھی۔
“امی اپ کو کیا لگتا ہے کہ آنٹی صبا نے میری بات سمجھی ہوگی؟” کچن میں داخل ہوتی اریج نے سوال کیا تھا۔ پیاز کاٹنے سے بریک لیتے مسز قاسم نے اس کی طرف دیکھا تھا جو یقیناً نہا کر ابھی نکلی تھی۔
“تاریخ خود کو دہراتی ہے مگر جذبات بدل کر رکھ دیتی ہے۔” یہ جملہ کہتے ہوئے ان کی آواز دھیمی تھی۔ اریج دو قدم قریب ہوئی تھی۔
“مطلب؟”
“جب ماں ایک بچے کو کھو دے تو وہ ہر بچے کی طرف خوفزدہ نظروں سے دیکھتی ہے۔ وہ یہ سمجھتی ہے کہ یہ حادثہ اس کے ہر بچے کے ساتھ ہوگا۔ مگر اللہ کسی کو اس کی برداشت سے بڑھ کر غم نہیں دیتا۔ تو “اگر” اگلی دفعہ ایسا کوئی واقعہ ہو بھی سہی تو جذبات مختلف ہوں گے۔ کیوں کہ ان کی اولاد بھی بہادر ہو چکی ہوتی ہے، خود کو حالات کے مطابق ڈھال چکی ہوتی ہے۔” پیاز کو سست روی سے کاٹتے انہوں نے دھیمی آواز میں کہا تھا۔ اریج کو چپ لگ گئی۔ وہ شاید اس بارے میں مزید سوچنا چاہتی تھی۔ مگر یہ تو طے تھا کہ وہ سوال نہیں کرے گی بلکہ جواب ڈھونڈے گی۔
“اچھا یہ بٹو کو کپڑے لا کر دے دو جو ہم نے کل علیحدہ کیے تھے۔” وہ سر ہلاتی کچن سے باہر نکل گئی۔
باپ کے کمرے کے قریب سے گزرتے اس نے آدھے کھلے دروازے سے جھانکا تھا۔ فون کو کندھے پر رکھے ، آنکھیں بند کئے وہ اس کی تقریر سن رہے تھے۔رعب دار چہرہ پہ ہلکی سی مسکان تھی۔ اریج کے لئے ان کی مسکراہٹ ہی بہت تھی۔ مسکرا کر وہ آگے کی طرف بڑھنے لگی۔ ذہن کی آماجگاہ میں ایک ہی فقرہ گردش کر رہا تھا
“تاریخ خود کو دہراتی ہے مگر جذبات بدل کر رکھ دیتی ہے۔“
گلی میں بجنے والے پٹاخوں کا شور دور کسی پس منظر میں جا چھپا تھا۔ کمرے میں بیٹھے مسٹر قاسم تیسری مرتبہ وہ آڈیو سن رہے تھے۔ کچن میں کھڑی مسز قاسم کو اپنے شہید بیٹوں کی یاد آئی تھی۔
شہر میں دور کسی گھر میں مسز صبا بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا رہی تھی جو ناجانے کہاں کہاں کی باتیں انہیں آج ہی سنا کر دم لینا چاہتی تھی۔
وطن اپنوں سے ہوتا ہے۔
یہ ہم سے ہوتا ہے۔
یہ وفا کا نام ہے۔
یہ احساس کا نام ہے۔
ختم شد
Welcome to Urdu Novels Universe, the ultimate destination for avid readers and talented authors. Immerse yourself in a captivating world of Urdu literature as you explore an extensive collection of novels crafted by creative minds. Whether you’re seeking romance, mystery, or adventure, our platform offers a wide range of genres to satisfy your literary cravings.
Authors, share your literary masterpieces with our passionate community by submitting your novels. We warmly invite you to submit your work to us via email at urdunovelsuniverse@gmail.com. Our dedicated team of literary enthusiasts will review your submissions and showcase selected novels on our platform, providing you with a platform to reach a wider audience.
For any inquiries or feedback, please visit our Contact Us page here. Embark on a literary adventure with Urdu Novels Universe and discover the beauty of Urdu storytelling
Writer's other novels:
- phool zulfon mn by Falak Tanveer
- meena qasai or bakra Eid by Sumbal Tauseef
- chand raat by Samavia Khan
- naveed e eid by Aneeza Syed
- letter box by Asiya Raees khan
0 Comments