Urdu Novels Universe

A Universe of Endless Stories Awaits You

آزادی کی جنگ میں دو سچے لوگوں کی محبت کی کہانی

Read Online

 

 

” رانی ” فرخندہ بیگم نے رانی کو پیار سے بلایا جو اُن کی اکلوتی بیٹی تھی۔

” ہاں امَاں ” رانی نے بکریوں کو درخت کے پاس لگی کھونٹی کے ساتھ باندھ دیا۔

” رانی بیٹی اب تو بڑی ھو گئی ہے۔ ۔ ۔ ” اس سے پہلے کے فرخندہ بی بی کچھ کہتی رانی کہنے لگی–

” ہاں ہاں امَاں چُنی سر پہ لے کر گئ تھی ”

” بیٹا چُنی لینا تو اب تیرا فرض ہے لیکن اب تو اٹھارہ برس کی ہو گئی ہے ، تیرا باپ پسند نہیں کرتا کہ اب تو بکریاں چرانے کے لیے بھی باہر نکلے ”

” اماں ! ” رانی نے فکر مندی سے اپنی ماں کی جانب دیکھا

” اور بیٹا اب تو ویسے بھی جلسوں کا اتنا زور ہے ، روز بروز جلسے ہوتے رہتے ہیں “

 ” ہمم یہ تو ہے اماں ، لیکن ہمیں کیا ! ہم تو کشمیر میں رہتے ہیں نا ! اگر ملک بن بھی گیا تو ہم تو اپنے ہی گھر رہیں گے نہ ” رانی نے آ نکھیں مٹکاتے ہؤۓ کہا

” میری رانی تو کتنی بھولی ہے ” فرخندہ بیگم نے ٹھنڈی آہ بھری

” نہیں اماں مجھے وانیہ ( رانی کی سہیلی ) نے بتایا تھا کہ محمد علی جناح صاحب نے مسلمانوں کے ملک کے لیے جو حصہ مانگا ہے ان میں کشمیر بھی شامل ہے ” رانی نے اپنی اماں کے علم میں اضافہ کرنے کی کوشش کی

” یہ کسی کو کچھ نہیں پتہ رانی ، رب العالامین بہتر جانتا ہے ” فرخندہ بیگم یہ کہتے ہوۓ چولہے کی جانب بڑھ گئ

” بے شک ” رانی نے کہا اور اپنی اماں کے پیچھے پیچھے مٹی کے چولہے کے پاس جا کر بیٹھ گئی

” اماں ” رانی نے حیرانی سے اپنی اماں کے چہرے کی جانب نظر دوڑائی

” ہاں اماں کی جان ” فرخندہ بیگم نے اپنی لاڈلی اور اکلوتی بیٹی کو نرم مزاج اور پیار سے جواب دیا

” اماں تو نے حلوہ بنایا ہے نہ ”

” خاص تیرے لیے ” اماں نے چھنی ( کٹوری ) میں رانی کے لیے حلوہ ڈالا جسے رانی نے ایک دم سے پکر لیا ،اس سے پہلے کہ رانی پہلا نوالا اپنے منھ میں ڈالتی کہ اماں نے رانی کو ٹوک دیا

” اے لڑکی ”

رانی نے اماں کی جانب سر اٹھایا 

” جا ہاتھ دھو کر آ ، وہی بکریوں والے ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا ” تھوڑا سخت لہجہ ، فرخندہ بیگم صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھتی تھی۔

” اماں ” رانی نے بیزاری سے کہا

اماں نے گھورا

” بکریاں بھی تو اپنی ہی ہیں اماں ”

” صفائی نصف ایمان ہے ”

“اماں “

” اور نصف کا مطلب ہوتا ہے ‘ آدھا ‘ ، ‘ آدھا ایمان ‘ ”

” اچھا اماں ” رانی کو آخر کار اٹھنا پڑا

فرخندہ بیگم اب رانی کو ھاتھ والے نلکے سے ہاتھ منھ دھوتے دیکھ رہی تھی

” بسم اللہ پڑھ اب ” اماں نے چھنی رانی کے حوالے کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔     

” اسفند یار ”

پہاڑوں میں اونچی آواز گونجی

” اسفند یار ”

ایک بار پھر

“اسفند یار”

تھوڑی دھیمی آواز

وہ سنہرے پہاڑوں کی ٹھنڈی ہوا اپنے اندر اترتے ہوۓ محسوس کر رہا تھا ، موتیے کے پھولوں کی خوب سیرت مہک اسکا دل ٹھنڈا اور دماغ تازہ کرنے کے لیے کافی تھی۔

” بس کر دے یار ، وقت بہت زیادہ ہو گیا وہ سب آدھا رستہ پار کر چکے ہونگے ” حماد نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا جبکہ اس کا چہرہ اسفند یار کی جانب تھا۔

” ایسی بات ہے ” اسفند یار نے مُڑ کر اپنے دوست کی جانب دیکھا

اس کی بھںوؤں کے درمیان ایک لکیر ابھری

” نہیں تو اور کیسی بات ہے ” حماد مسکرایا

” اچھا چل چلتے ہیں ” اسفند یار نے حماد کے گرد اپنا بازو پھیلایا اور وہ دونوں اپنے کوارٹر کی جانب بڑھ گۓ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                ” واہ کیا شہزادہ لگتا ہے ” ببلی نے کہا

” ہاں ویسے ہے تو واقعی شہزادہ ” سمینہ نے کہا

” دیکھ تو سہی کیسے چل کے آ رہا ہے ، کتنا سونا لگ رہا ہے ” ببلی

” ہاں اس کے کپڑے کتنے جچ رہے ہیں ”  سمینہ

” چپ کر جا ببلی ،تقریر شروع ہو گئ ہے ” سمینہ نے کہا۔

” کتنا پیارا بولتا ہے نہ ”

ببلی” سمینہ مسکراۓ بنا نہ رہ سکی

سر محمد علی جناح کی ایسی پرسنیلیٹی ہے جو آج کے زمانے میں بھی ڈریسنگ میں گوگل کروم میں نمبر ون پر آتے ہیں ، نہیں یقین تو سرچ کر کے دیکھ لے، بہت پرسنیلٹڈ تھے۔”

وہ دونوں اس وقت محمد علی جناح صاحب کے جلسے میں موجود تھی ، محمد علی جناح کے گاڑی سے نکلنے اور سٹیج پر جا پہنچنے تک وہ محمد علی جناح صاحب کی تعریفوں کے گُن گاتی رہیں ، جلسے میں پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں تھی، ہر جگہ محمد علی جناح کے نعرے اور علیحدہ وطن کے نعرے لگ رہے تھے۔

 

” میں محمد علی جناح ، میں درست فیصلے لینے پر یقین نہیں رکھتا بلکہ فیصلہ لے کر اسے ایک بہترین فیصلہ ثابت کرتا ہوں”

تالیوں کی آواز نے سارے میدان کو جوش سے بھر دیا۔

 

” ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیاں دینا سیکھیں گے ، اتنی ہی زیادہ پاکیزہ ، خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے ابھریں گے ، جیسے سونا آگ میں تپ کر کندن بن جاتا ہے ”

ایک بار پھر بھرے میدان میں تالیوں کی آواز گونج اٹھی۔

عورتیں جتنی زیادہ محنت کریں گی اتنی مضبوط ہوتی جائیں گی ۔ میں تو کہتی ہوں اس جہان کے مردوں نے عورت سے ہلکے ہلکے کام کروا کر اسے آلسی اور کمزور بنا دیا ہے تاکہ وہ مردوں کا مقابلہ نہ کر سکیں ،

ٹھیک ہے اسلام میں بھی ہے یہ کہ عورت مرد سے نیچے ہے برابری نہیں ہو سکتی ، لیکن اگر کہیں لڑکی اکیلے باہر جاتی ہے اگر کہیں عزت لوٹنے والے لٹیرے اسے گھیر لے تو عورت کے اندر اتنی ہمت ہونی چاہیے کہ وہ دو چار آدمیوں کا سامنا اکیلے کر سکے، اتنی ہمت تو ہونی چاہیے عورت میں کہ وہ اپنی عزت کی حفاظت خود کر سکے ، ہر بار کوئی شہزادہ بچانے نہیں آتا ، ہر وقت کوئی مرد ( محرم یا نا محرم ) ساتھ نہیں ہوتا ، اب کچھ لوگ دقیانوسی زہنیت کے مالک یہ کہیں گے کہ عورت کو گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے تو میں ان سے یہ کہوں گی کہ تجارت تو ہمارے پیارے نبی ﷺ حضرت محمد ﷺ کے دور میں بھی ہوتی تھی اور بے شک حضرت محمد ﷺ نے بھی ایک تجارتی عورت اماں حضرت خدیجہ علیہ سلام سے نکاح مبارک کیا۔

اور اب ان مردوں( سب مردوں کو نہیں کہا گیا ، صرف انھیں کہا گیا ہے جو ایسی سوچ رکھتے ہیں ) کی چال یہ ہے کہ عورت کو زہنی کمزور اور معزور بنایا جاۓ تا کہ وہ مرد سے برابری کا سوچ بھی نی سکیں ، ہاں میں یہ کہتی ہوں عورت مرد سے برابری نہ کریں لیکن مرد جتنی یا اس سے آدھی یا پچھتر فیصد طاقت تو اپنے اندر لے کر آئیں ، جان بنانے کے لیے کہہ رہی ہوں موٹا ہونے کے لیے نہیں ، صحت میں اور موٹاپے میں بہت فرق ہوتا ہے۔

اسی لیے تو آج عورت  ہلکی سی چیز کو کہتی ہے کہ یہ وزنی ہے۔

 

” دنیا میں دو قوتیں ہیں ایک تلوار اور دوسرا قلم “

 

اگر عورت کے پاس تلوار کی قوت حاصل کرنے کی ہمت نہیں ہے تو اسے چاہیے کہ قلم کی قوت کو حاصل کرے ، قلم وہ قوت ، وہ طاقت ہے جو تلوار سے زیادہ وزنی اور طاقت ور  ہے ، جس عورت کے پاس قلم ہوگا اور قلم کو استعمال کرنے کی درست سوچ اور صلاحیت ہو گی ، وہ عورت کبھی ناکام نہیں ہو سکتی ، ہر مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے یہ بات سب نے سنی ہے اور اسے ہمیشہ غلط معنی میں استعمال کیا ہے ، میں کہتی ہوں ہر مرد کیا ، ہر نسل کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ، جتنی باوقار ، غیرت مند ، نڈر اور مضبوط سوچ رکھنے والی عورت ہوگی ، ویسے ہی اسکی نسل ہو گی ، نسل کی تربیت اور اسے برباد کرنے والی عورت ہی ہوتی ہے اور باوقار ، نڈر ، غیرت مند ، مضبوط عورت کی پہچان اس کے لہجے اور اس کی چال سے ہوتی ہے جس میں چلن بہتر اہمیت رکھتا ہے۔

جس عورت کے پاس قلم ہے وہ اپنے قلم کو تلوار بنا کر بے غیرت لوگوں سے بہت اچھے سے سامنا کر سکتی ہے ، عورت کو پیر کی جوتی سمجھنے والوں کو شکست دے سکتی ہے ، عزت لوٹنے والوں کا گلا گھونٹ سکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                                             

” رانی ” وانیہ نے رانی کو خاموشی سے آواز دی تا کہ اماں نہ سن لے

” ہاں ” رانی چپکے سے دروازے تک آئی

” آ جا بکریاں لے کر ” وانیہ نے کہا

” نہیں میں نہیں آسکتی ” رانی نے نظریں جھکائیں

” کیوں ” وانیہ نے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا

” وہ- – – اماں نے منع کیا ہے ” رانی نے اپنی انگلیاں مڑوڑتے ہوۓ کہا

” کیوں ” وانیہ نے رانی کے چہرے کی طرف دیکھا

” وہ اماں کہتی ہے- -” رانی ابھی بتا رہی تھی کہ وانیہ بول پڑی

” کیا کہتی ہے ” وانیہ نے تجسس سے پوچھا

” وہ کہتی ہے کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں جلسے بہت ہو رہے ہیں گھر سے قدم باہر نہیں رکھنا ” رانی نے اپنی وجہ بتاٰئی

” ہے!!! ماسی ( رانی کی اماں ) نے تو کبھی تجھے ایسے نہیں کہا پھر اب کیوں ” وانیہ نے رانی کی بات پر حیران ہوتے ہوۓ کہا

” ہاں میں اب کیا کروں ، کب سے گھر میں بیٹھ کے دیواروں کو تک رہی ہوں ، اور تو کہاں کی سہیلی ہے میری ؟ ، ملنے بھی نہیں آئی مجھ سے کل کی ” رانی نے کمر پر ہاتھ رکھ کر ساری شکائیتیں ایک بار میں ہی کر ڈالیں

” ہاۓ میری رانی تو اور اتنی اداس آ زرا میں ابھی ماسی سے پوچھتی ہوں ” وانیہ نے رانی کا ہاتھ پکڑا اور گھر کے اندر بڑھ گئی

 

اس زمانے میں لوگ اپنے بڑوں کو آنٹی انکل نہیں کہتے تھے کیونکہ یہ الفاظ انگریزوں کے تھے ، اور انگریزوں کا بر صغیر کے لوگوں ( مسلمانوں اور ہندوؤں ) پر حکومت کرنا ، بر صغیر کے لوگوں کے دلوں میں انگریزوں کے لۓ نفرت پیدا کر چکا تھا ، انگریز بر صغیر کے لوگوں کو غلام سمجھتے تھے ، جبکہ انگریزوں کی غلامی برصغیر کے لوگوں کی رگوں میں نفرت کی آگ دھڑکا چکی تھی۔ وہاں کے لوگ ایک دوسرے کو اپنے بھائی بہن کہتے تھے ، ہمسایوں کو ماسی ، پھوپھی ، چاچا ، چاچی ، خالو ، تایا وغیرہ کہتے تھے۔

 

” ماسی ” وانیہ نے آواز دی

” وانیہ تو ! تو کب آئی” ماسی نے ہاتھ میں پکڑا پیالہ بنَی پر رکھ دیا

” ماسی تو نے رانی کو باہر جانے سے کیوں منع کیا ” وانیہ ناراضگی سے بولی

” بیٹا تجھے تو پتہ ہے حالات کتنے خراب ہیں اور یہ تو ہے بھی کم عقل کوئی کہے گا میرے ساتھ چل تو یہ چل دے گی ” ماسی نے کہا اور رانی کا منھ بن گیا

” ایسے کیسے چل دے گی یہ ، تیری بھانجی ساتھ ہو گی ماسی ، اور اسکا کونسا کوئی بہن بھائی ہے ماسی جو گھر میں ان کے ساتھ مصروف ہو جاۓ ” وانیہ نے کہا

” لیکن بیٹا ” ماسی نے کچھ کہنے کی کوشش کی کہ وانیہ بول پڑی

” لیکن ویکن کچھ نہیں ماسی ہم دوپہر ہونے سے پہلے لوٹ آئیں گے ، ابھی تو ظہر ہونے میں کافی وقت پڑا ہے ” وانیہ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ رانی کو بازو سے پکڑ کر آنگن ( صحن ) میں لے آئی۔

” ماسی ویسے بھی ابھی تو ہم دونوں اٹھارہ برس کی ہیں تو نے کونسا رانی کا ساک ( کسی کو اپنے بچے کا رشتہ دینا ) دے دیا ہے “

اس زمانے میں اگر کسی لڑکی کے ساک کی بات بھی گھر میں چل رہی ہوتی تھی تو اس لڑکی کا گھر سے باہر نکلنا بھی منع ہو جاتا تھا۔

” بیٹا وہ بات نہیں ہے تیرا ماسر ( خالو ) بھی اب منع کرتا ہے جلسوں کی وجہ سے ” اماں نے کہاں

” ماسی تجھے تو پتہ ہے ہم دور نہیں جائیں گے بس بکریاں چرا کر لے آئیں گے ” وانیہ مسکرا کر بولی

رانی بکریوں کو کھونٹی سے کھولتے ہوۓ کبھی وانیہ کو دیکھتی تو کبھی اماں کو

” اچھا بیٹا پھر جلدی آنا ” رانی کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑی۔

” چل رانی چلیں ” وانیہ نے خوشی سے کہا جیسے بہت مشقت سے اجازت ملی ہو

اور وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے پہاڑوں کی طرف روانہ ہو گئیں

” رب کے حوالے رب خیر کریں ” ماسی انھیں جاتے ہوۓ دیکھتی رہی اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔                                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” ویسے حماد یار شام کی خوبصورتی تو ایک طرف لیکن صبح کی تو کیا ہی بات ہے ” اسفند یار نے پہاڑی پر کھڑے ہو کر تازہ ہوا محسوس کی۔

“ہاں یہ تو ہے ویسے ” حماد نے کہا لیکن اسفند یار نے صرف اس کی بات محسوس کی۔

” آ جا نیچے کہیں گر نہ جائیں ” حماد نے اس کے آگے ہاتھ کیا تا کہ وہ ہاتھ پکر کر نیچے آ سکے

” نہیں گرتا ، تیرا یار اتنا کچا نہیں ہے ” اسفند یار نے حماد کا ہاتھ تھاما اور نیچے اتر آیا

” ویسے اگر گر جاتا تو ” اسفند یار نے اپنے دوست حماد کو آزمانا چاہا

” تو میں اپنے دوست اسفند یار کو کہاں سے ڈھونڈ کر لاتا ” حماد نے اسفند کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کہا جیسے اپنی اور اپنی دوستی کی سچائی ظاہر کرنا چاہ رہا ہو

” پھر تو میں بھی آنکھیں بند کرتا اور گر جاتا ” حماد نے کہا اور اسفند یار کو حماد کی آنکھوں میں سچائی نظر آئی۔

صبح کی تازہ صاف و شفاف ہوا ، گھنے درخت اور آکسیجن دینے میں مدد کر رہے تھے ، چڑیوں کی چہچہاہٹ ، کبوتروں کا کبھی کسی پہاڑی پر بیٹھنا اور کبھی کسی پہاڑی پر اور اللہ قادر مطلق کا ورد کرنا۔

” سبحان اللہ ” اسفند یار اور حماد نے ایک ساتھ کہا

ان دونوں کو ایک دوسرے کی بات سمجھنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ جانتے تھے جو بھی یہاں آۓ گا ‘ سبحان اللہ ‘ کہے بنا جا نہیں سکے گا۔

 

فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

” اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے ”

یہ شعلہ یہ شبنم یہ مٹی یہ سنگ

یہ جھرنوں کے بجتے ہوۓ جلترنگ

یہ جھیلوں میں ہنستے ہوۓ سے کنول

یہ دھرتی پہ موسم کی لکھی غزل

یہ سردی

یہ گرمی

یہ بارش

یہ دھوپ

یہ چہرہ

یہ قد

اور

یہ رنگ و روپ

درندوں چرندوں پہ قابو دیا

تجھے بھائی دے کر کے بازو دیا

بہن دی تجھے اور شریک سفر

یہ رشتے یہ ناطے یہ گھرانہ یہ گھر

کہ

اولاد بھی دی

دئیے والدین

الف

ل

م

اور عین غین

یہ عقل و زہانت ، شعور و نظر

یہ بستے یہ صحرا یہ خشکی یہ تر

اور اس پر کتاب ہدایت بھی دی

نبی بھی اتارے ، شریعت بھی دی

غرض کے سبھی کچھ ہے تئرے لیۓ

بتا کیا ، کیا تو نے میرے لیے

 

 

 

 

” واقعی یار کشمیر کی خوبصورتی کے تو کیا ہی کہنے ہیں ” اسفند یار فخریہ انداز میں بولا

” ہاں یار ، اور مزے کی بات یہ ہے کہ محمد علی جناح نے جن علاقوں کا مطالبہ مسلمانوں کے ملک کے لیے کیا ہے ان میں کشمیر بھی شامل ہے ” حماد نے فخر سے کہا

” ماشاءاللہ ماشاءاللہ ، اللہ قادر مطلق مسلمانوں کے نصیب میں کریں ” اسفند یار خوشی سے بولا

” رب العالامین خیر کریں ” حماد کو اسفند یار کے چہرے پر خوشی کی رمق محسوس ہوئی

کس کو کیا خبر تھی کہ کشمیر کے ساتھ کیسا ظلم کیا جاۓ گا اور ہم ایسے لوگ ہیں جو اپنے وطن کا ٹکرا نہیں بچا سکے تو ملک کو کیا بچائیں گے ، بے حس لوگ ہیں ہم ، اگر ہم روٹی کھا رہے ہیں تو کیا اپنے گھر کے تھوڑی دور کسی کچے مکان یا جھگی میں جا کر دیکھنا ؛

کیا ان کا چولہا جلا آج؟

” ارے میری بکریوں کہا چلی جا رہی ہو ” رانی کہتے کہتے بکریوں کے پیچھے چلتی گئی

“اے رانی کدھر جا رہی ہے تو ” وانیہ اسے کہتی کہتی رانی کے پیچھے بھاگی

” بہت شرارتی ہو گئی ہو تم سب ، لگاؤں ایک “

رانی نے ان میں سے ایک بکری کو کان سے پکڑتے ہوۓ ہاتھ کا اشارہ کیا

اسفند یار اسے بہت تجسس سے دیکھ رہا تھا کہ آخر مسکرا دیا کہ بھلا بکریوں سے ایسے کون پیش آتا ہے ، آتی ہے نہ ہماری رانی ایسا ہی پیش آتی ہے اپنی بکریوں سے کیونکہ رانی کو اسکی چار بکریاں حد سے زیادہ عزیز ہے۔

” چل واپس ” رانی نے کہا کہ اچانک اسکی نظر اسفند یار کے کھلکھلاتے چہرے پر اتری

دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا

” کتنا سونا ( پیارا ) ہے ” رانی بڑبڑائی

رانی کی آواز اتنی دھیمی تھی کہ رانی کے علاوہ اسے کوئی سن نہیں سکتا تھا

” رانی تو یہاں کیا کر رہی ہے ، چل واپس ” وانیہ رانی کے پیچھے کھڑی اونچی آواز میں کہہ رہی تھی لیکن پھر بھی اسفند یار رانی کا نام نہیں سن سکا

” ہاں آ رہی ہوں ” وانیہ کی بات پر رانی دنیا میں آئی اور ابھی وہ جانے کے لۓ مُڑی ہی تھی کہ اسفند یار کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی

” سنیے ” اسفند یار نے اسے پکارا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ رانی اتنی جلدی اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو جاۓ

” جی ” رانی نے مُڑ کر کہا

” نام کیا ہے ” اسفند یار ایک قدم آگے بڑھا اور رانی ایک قدم پیچھے

“چھندو ” رانی نے ایک نظر بکڑی کی طرف دیکھا اور ایک نظر اسفند یار کی طرف

” نہیں آپکا ” اسفند یار نے ایک نظر بکری کی جانب دیکھا اور پھر رانی کے چہرے کی جانب

” رانیہ ” رانی نے کہا اور چلی گئی

” رانیہ ” اسفند یار نے لفظ اپنی زبان پر ایک بار دہرایا اور اپنے دل میں ہمیشہ کے لے قید کر لیا

حماد اس سب میں تماشائی بنا کبھی اپنے دوست اسفند یار کو دیکھتا تو کبھی رانی کو

” خیر تو ہے اسفند صاحب ” حماد نے بھنوئیں اٹھا کر پوچھا

” تھی اب نہیں رہی ” اسفند یار نے کھوۓ کھوۓ انداز میں کہا

“مطلب ” جیسے حماد کو کچھ کچھ سمجھ آنے لگا تھا

” تیرے بھائی کے ارادے بدل رہے ہیں ” اسفند یار نے کہا

” بیٹا جی اوپر سے خبر آئی ہے کہ چودھری رحمت علی نے مسلمانوں کے ملک کا نام ” پاکستان ” تجویز قرار کر دیا ہے اور ایک مہینہ میں پاکستان بن جاۓ گا ، تو لہذٰا آپ ابھی عشق معشوقی کے چکر سے دور ہی رہیں ” حماد نے اسے وارن کرنا چاہا لیکن وہ اب کہا ماننے والا تھا وہ ایک بائیس سالہ خوبصورت حسین خوبرو صحت مند اور طاقت ور انسان تھا کہ ہر لڑکی اس پر دل ہار بیٹھے اور سب سے بڑی بات کہ تھا بھی شہری اس بات کا اندازہ ہر کوئی اس کے پہننے اوڑھنے سے آسانی سے لگا سکتا تھا۔

” کچھ بھی ہو تیری بھابھی تو کشمیر کی ہی بنے گی اب ” اسفند یار نے کوئی پرواہ نہ کرتے ہوۓ معمولی سے انداز میں کہا

” بس کر دے یار تجھے ایک نظر میں محبت بھی ہو گئی ہے ” حماد نے کہا اور اپنے کوارٹر کی طرف چل پڑا

وہ  یہاں ایک مہیںے کی چھٹیوں پر آۓ تھے

” ہاں ، قسم سے ، پہلے مجھے ایک نظر والی محبت پر یقین نہیں تھا لیکن اب تو پکا یقین ہو چکا ہے مجھے ” اسفند یار نے کہا اور مسکراۓ بنا نہ رہ سکا

” ویسے کتنا پیارا نام ہے نہ ” اسفند یار نے چلتے ہوۓ حماد کے چہرے کی جانب دیکھا

” کونسا نام ” حماد نے بھی اسفند یار کے چہرے کی جانب دیکھا

” تیری بھابھی کا ” اسفند یار نے کہا

” اب وہ میری بھابھی بھی بن گئی ہے؟ اتنی جلدی ” حماد نے حیرانی سے اسفند یار کے چہرے کی طرف دیکھا

” ہاں تو ” اسفند یار نے ایسے کہا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو

” کوئی حال نہیں تیرا ” حماد نے کہا

” اچھا بتا نہ کتنا پیارا نام ہے نہ اماں جی کو پسند آۓ گا نہ ” اسفند یار نے کہا

” کیا ، میں نے نہیں سنا ” حماد کا ارادہ اسفند یار سے بار بار لفظ ” کیا ” کہہ کر پاگل کرنے کا تھا

” رانیہ ” اسفند نے خونخار نظروں سے حماد کی طرف دیکھا

” ہاں ہاں بہت اچھا ہے ، بہت پسند آۓ گا اماں جی کو ” حماد نے جان چھرانی چاہی

” ویسے پکی خبر ہے؟ ” اسفند یار اب تھوڑا سنجیدہ ہو چکا تھا

” کونسی والی ” حماد نے اس بار اسفند یار کے چہرے کی طرف دیکھنے کی غلطی نہیں کی
” پاکستان والی ” اسفند یار نے چباتے ہو
ۓ کہا جیسے اس کے دانتوں کے نیچے حماد ہو

” ہاں ہاں پکی خبر ہے ” حماد نے یہ کہا اور اپنے قدموں کی رفتار بڑھا لی اس ڈر سے کہ کہیں اسفند یار اسے دو تین مکے ہی نہ جڑ دے

” اچھا ” اسفند یار نے زمین کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا

 

” کہاں رہ گئی تھی تو ” وانیہ نے رانی کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا ” کہیں نہیں بس یہ بکڑیاں ادھر چلی گئی تھیں ” رانی نے سر جھکاۓ کہا
” اچھا اور وہ لڑکا کون تھا ” وانیہ نے تفتیشی نطروں سے پوچھا

” مجھے کیا پتہ تو، تو مجھ سے ایسے پوچھ رہی ہے جیسے بھلا میں اسے جانتی ہوں ” رانی نے کہا اور بات ختم کرنا چاہی

” اچھا ” وانیہ ایک پل کو خاموش ضرور ہو گئی تھی لیکن رانی کے لہجے کو اچھے سے سمجھ گئی تھی

رانی اب وانیہ سے آگے تھی اور وانیہ پیچھے

” یا اللہ میری دوست کی خیر کری اسے ہر بُری راہ سے بچائیں آمین ” وانیہ کے دل سے دُعا نکلی اور وہ تیز قدموں سے رانی کے برابر پہنچ گئی

 

 

” او تیری ” اسفند یار نے ماتھے پر ہاتھ مارا

” کیا ہوا ” حماد نے پوچھا

” رانیہ سے میں یہ تو پوچھنا ہی بھول گیا کہ وہ کل آۓ گی یا نہیں ” اسفند یار نے اپنا مسئلہ بتایا

” وہ گاؤں کے علاقے سے ہے اس کے باپ بھائی کو پتہ چل گیا تو وہ پہلے تجھے ماریں گے پھر مجھے ” حماد نے اسفند یار کو ڈرانا چاہا

“تو ہمیشہ منحوس باتیں ہی کیا کر ” اسفند یار نے منہ پھیرا

” حقیقت کڑوی ہی ہوتی ہے ” حماد نے کہا

” تو اپنی حقیقت اپنے پاس ہی رکھ ” اسفند یار نے کہا

” ویسے رانیہ کے ساتھ اس کی دوست بھی تھی ” اسفند یار نے نظر گھما کر حماد کے چہرے کی طرف دیکھا

” ہاں تو ” حماد نے کہا

” تو ” اسفند یار نے سوچنے کے انداز میں کہا

” تو اسے میری بھابھی بنا لیں ” اسفند یار یہ کہہ کر رکا نہیں تھا

” دفعہ ہو جا یہاں سے ” حماد کے ہاتھ میں پرفیوم کی بوتل تھی جو ٹوٹنے سے بچ گئی تھی۔

 

” کتنا سونا تھا نہ وہ ” رانی چار پائی پر لیٹی دل ہی دل میں خود سے کہہ رہی تھی

” اس نی میرا نام کیوں پوچھا ہو گا بھلا؟”

” وہ مجھے دیکھ رہا تھا “

” وہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا “

” کیا میں اسے اچھی لگی تھی ”

ایسے کئی ان گنت سوال اس کے زہن میں منڈلا رہے تھے۔

” نہیں مجھے اس کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے “

” پتہ نہیں وہ کون ہے اور کون نہیں “

” پتہ نہیں اس کا کیا نام ہے”

” پتہ نہیں وہ کہاں سے آیا ہے “

” کیا پتہ وہ چلا گیا ہو ”

” یہ بھی ہو سکتا ہے وہ یہیں رہتا ہو “

” اگر کہیں وہ اباں کا جاننے والا نکل آیا تو “

” اباں کا ایسا جاننے والا اور اتنا امیر نہیں ہو سکتا “

” پتہ نہیں وہ کب جاۓ گا ”

وہ اپنے دل میں خود سے سوال کرنے میں مگن تھی کہ اچانک اماں کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی

” رانی “

” رانی ” اس بار فرخندہ بیگم نے زرہ اونچی آواز دی

” ہاں — ہاں اماں ” رانی بوکھلائی ہوئی بولی

” کہاں گم ہے تو ؟ ” اماں کے ماتھے پہ دو لکیریں ابھریں

” کہیں نہیں اماں یہی ہوں ” رانی چارپائی سے اٹھ کر بیٹھ گئی

” کب سے بلا رہی ہوں تجھے ” اماں غصہ ہو کر بولی

” اچھا نا اماں بتا کیا ہوا ” رانی بیزار ہو کر بولی

” یہ لے دودھ پی لے اور بعد میں گلاس دھونے والے برتنوں میں رکھ دیں یا اگر برتن ہی دھو دیں تو اچھا ہے کام پڑا نہیں رہنا چاہیے ” اماں نے کہا اور چلی گئی

” لو جی ایک اور نیا کام ” رانی اپنی تھوڑی کے نیچی ہاتھ ٹکا کر آنگن کو گھورنے میں مصروف ہوگئی۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                        

” یار ابھی تک آئی نہیں ہے وہ ” اسفند یار اگلی صبح اپنی جگہ سے تھوڑی دور کھڑے ہو کر رانی کی راہ تک رہا تھا

” رہنے دے وہ نہیں آنے والی آج ” حماد نے منہ پر ہاتھ رکھ کر باسی روکنا چاہی

” یار ایسے تو نہ کہہ ” اسفند یار کو برا لگا

” مجھے کچھ نہیں پتہ ، کل تو ہم اس لیے جلدی اٹھے تھے تاکہ کچھ پکچرز لے سکیں نیچر کی ، اور آج تو نے ایویں اٹھا دیا ” حماد نے اسفند یار کی طرف سے منہ پھیرا جس پر اسفند یار اسے دیکھتا رہ گیا

” نیند آ رہی ہے مجھے ” حماد غصے سے بولا

اسفند یار نے سر جھکا کر نفی میں ہلایا ۔ جیسے اسکا کچھ نہیں ہو سکتا

ابھی اسفند یار نے سر جھکا کر اٹھایا ہی تھا کہ اسے سامنے سے آتے ہوئی وہی کل والی چار بکریاں اور ان چار بکریوں کے درمیان وہی کل والی پیاری سے معصوم سی رانیہ نظر آئی

” آ گئی ” اسفند یار نے کہا اور کہتے ساتھ ہی رانیہ کی طرف لپکا

حماد نے ابھی یہ سنا ہی تھا کہ اسفند یار کو خود سے کوسوں دور پایا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلا تھا

” کر لے عشق معشوقی جتنا دل کرے ” حماد نے منھ پھیرا

لیکن اسفند یار نہ اس کی آواز سن سکا تھا اور نہ اس کی حرکت دیکھ سکا تھا کیونکہ اسفند یار کی ساری توجہ کا مرکز اس وقت رانیہ تھی

رانیہ وہاں پر اکیلی آئی تھی کیونکہ وانیہ کو بخار تھا

” اسلام علیکم ” اسفند یار کے چہرے پر مسکراہٹ تھی

رانیہ اسے یہاں اچانک دیکھ کر حیران تھی لیکن رانیہ کے دل کے ایک کونے میں کہیں نہ کہیں سکون بھی ضرور تھا

” وعلیکم اسلام ” رانیہ نے جواب دیا اور پہاڑی کی ایک چٹان پر بیٹھ گئی اور بکریاں رانی سے کچھ دور گھاس چرنے میں مصروف ہو گئی

” شکر ہے آپ آ گئیں ، میں آپکا انتظار کر رہا تھا ” اسفند یار بھی رانیہ سے کچھ دور فاصلے پر اسی چٹان پر بیٹھ گیا

” کیوں ؟ ” رانیہ نے ایسی نظروں سے اسفند یار کی طرف دیکھا جیسے رانیہ کو پہلے ہی سے اسفند یار کے جواب کا اندیشہ ہو ، جیسے وہ اس سے وہی سننا چاہتی ہو جو اس کا دل اس وقت کہہ رہا تھا اور پھر ہوا بھی ایسے ، پہلہ محبت ہوتی تو بہت میٹھی ہے لیکن زخم بھی بہت گہرے دیتی ہے ، کبھی کبھار وہ ہو جانا جو ہمارا دل چاہ رہا ہو ہمیں خوشی تو دیتا ہے لیکن اس بات سے نہ واقف ہوتا ہے کہ یہ آنے والے وقت کے لۓ کتنا زیادہ خوش قسمت یا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

” رانیہ پتہ نہیں کیوں جب سے تم مجھے ، میری آنکھون کو نظر آئی ہو بس بھا سی گئی ہو جیسے کوئی اور جچتا ہی نہ ہو جیسے میری آنکھیں اور میرا دل کسی اور کو میری آنکھوں میں جچنے اور میرے دل میں ہمیشہ کے لیے بسنے یا تمام عمر ساتھ نبھانے کی اجازت ہی نہ دینا چاھتا ہو۔ “

” میں۔ ۔  ۔ میں سمجھی نہیں ” رانیہ نے ایسے باور کروایا جیسے نہ سمجھی ہو

” رانیہ ” اسفند یار نے رانیہ کی آنکھوں میں دیکھا اور دیکھتا ہوۓ کہا

“جی ” رانیہ بول پڑی

” محبت کرتا ہوں تم سے” اسفند یار نے ایک ہی سانس میں  کہہ ڈالا

” کیا تم مجھ سے شادی کرو گی ؟ “

” کیا میری دلہن بنو گی ؟ “

” کیا تمام عمر میرا ساتھ نبھاؤ گی ؟ “

” کیا تمام عمر میری ہم سفر رہ کر میری وفا بنو گی ؟ ”

” کیا میرے کام پر چلے جانے کے بعد ، میرے لۓ اچھا سا کھانا بناؤ گی ؟ “

” کیا مجھے کہو گی ؟ کہ جلدی آنا “

” کیا مجھے کہو گی ؟ کہ میں آپکا انتظار کرو گی ! “

 

” کیا میرے چھوٹے سے گھر میں رہو گی ؟ “

” کیا میرے چھوٹے سے گھر کے ٹیرس کی بالکونی پر کھڑے ہو کر میرے گھر آںے کا انتظار کرو گی ؟ “

” میرے لوٹ آنے کا اتظار کرو گی ؟ “

” جب کہیں کبھی میں پریشان ہو کر تھک ٹوٹ کر گھر آؤں تو کیا تم میرا دل بہلاؤ گی ؟”

” کیا تم ہماری آنے والی نسل کو ہماری وفا اور ہماری محبت کی کہانیاں سناؤ گی ؟ “

” کیا تم ہماری نسل کو ہماری کہانیاں سناتے ہوۓ آنکھوں میں آنسو لے کر مجھے یاد کرو گی ؟ “

” کیا روزانہ اپنے بڑھاپے میں میرا تم سے پہلے دنیا سے چلے جانے کی شکایت کرو گی ؟ “

 

رانیہ اٹھی اور غائب دماغی کے ساتھ چلتی گئی جب تک گھر نہیں آ گیا

اسفند یار اسے جاتے ہوۓ دیکھتا رہا

” تم جواب دو گی “

” اور بہت جلد دو گی ”

” میرا دل کہتا ہے “

” اور میرا دل جھوٹ نہیں کہہ سکتا “

” کیونکہ یہ رب العالامین کا تخت ہے ”

بس یہی بات تھی جو اسفند یار کو مطمئعن کر گئی تھی۔                                 ———

 

” میں تم سے محبت کرتا ہوں ” اسفند یار کی کہی گئیں سب باتیں اس کے کانوں میں ایسے گونج رہی تھی جیسے ریڈیو پوری آواز میں شور مچاتا ہے ، بل آخر وہ جاۓ نماز بچھا کر سجدے میں گر گئی ۔

” یا رب میں جانتی ہو مجھ سے غلطی ہوئی ہے ، میں تیرے حوالے ، مجھے معاف فرما دے ، میری ہر شہ ، میری زندگی میں اور زندگی سے جڑا سب کچھ تیرے حوالے ، میری جان کے مالک اپنی رانیہ کو بہتری کی راہ پر لا ، میرے لۓ بہتر فرما ، آمین سمامین یا رب العالامین ”

نماز پڑھ کر رانیہ اپنی چار پائی پر لیٹ گئی اور سکون سے سو گئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                         

” کتنا اچھا ہو نہ حماد اگر آج تیری بھابھی جواب دے دے ”

اسفند یار کی آنکھوں میں ستارے جگمگا رہے تھے

” مجھے نہیں پتہ ، مجھ سے نہ پوچھ ، بس اتنا کہو گا ، رب تیرے حق میں بہتر کرے آمین ” حماد نے کہا اور خاموشی سے رُخ اسفند یار کی جانب سے پھیر لیا

” ویسے تو ہر بار ایسا ریئکٹ کیوں کرتا ہے ” اسفند یار حماد کی آگے جا کھڑا ہوا

 حماد نے کوئی جواب نہیں دیا

” مجھے پتہ ہے کیوں ” اسفند یار نے حماد کی توجہ اپنی طرف کھینچنا چاہی اور اس میں کامیاب  بھی ہو گیا

” کیوں ؟ ” حماد نے پوچھا

” کیوں کہ رانیہ کے ساتھ اب اس کی دوست نہیں آتی نہ اس لیے ” اسفند یار نی کہا

” یہ میری جوتی دیکھ رہا ہے تو ” حماد نے کہا

” ہاں تو ” اسفند یار نے نا سمجھنے کا ناٹک کیا

” گیارہ نمبر کی جوتی ہے اور جب پڑتی ہے نہ تو پھر نانی یاد آ جاتی ہے ” حماد نے کہتے کہتے اپنا جوتا ہاتھ میں پکڑ لیا تھا اور اب اسفند یار آگے تھا اور حماد پیچھے پیچھے

” یار اتنا بھی کیا غصہ ہو سکتا ہے آج اس کی دوست بھی آ جاۓ ” اسفند یار نے حماد کے گصے میں اضافہ کیا

” تو باز نہیں آۓ گا ” حماد اب چڑ چکا تھا

” اچھا اچھا سوری یار کیا ہو گیا تو تو برا ہی مان جاتا ہے “

” ویسے وہ آئی نہیں ابھی تک ”

” شام ہونے کو ہے چل واپس چل ” حماد نے کہا

” نہیں تو جا میں آ جاؤ گا کچھ دیر تک ”                                 —————–

اگلے ایک ہفتہ تک رانیہ پہاڑی والہ جگہ پر نہیں گئی تھی جہاں اسے اسفند یار دکھائی دیا تھا ، جہاں رانیہ چپ چپ سی تھی وہاں اسفند یار شدید پریشانی اور انتظار میں تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                             

” کاش تم آ جاؤ ”

دل نے ایک تمنا کی تھی اور وہ سچ ہو گئی تھی

اسفند یار نے کوارٹر سے نکلتے ہوۓ دل ہی دل میں ایک خواہش کی تھی

اسفند یار آج اکیلا آیا تھا ، وہ اسی پہاڑی کی چٹان پر بیٹھا رانیہ کی راہ تک رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” کیا مجھے آج جانا چاہئے ؟ ” رانیہ نے خود سے سوال کیا

” ہاں مجھے جانا چاہیے ” رانیہ نے جواب دیا

” لیکن یہ غلط ہے ” رانیہ نے  کہا

” تو پھر آخر کب تک تم اسفند یار کی سوچوں میں رہ کر خود کو پریشان کرو گی ؟ ” رانیہ نے سوال کیا

” نہیں – – – نہیں ، میں پریشان نہیں ہوں ” رانیہ نے خود ہی کے حق میں صفائی دی

” اگر پریشان نہیں ہو تو کیوں ہر وقت اسفند یار کو سوچتی رہتی ہو ، ماتھے پر دو بل لیے ” رانیہ نے کہا

” ہاں – – – – – – – – – – – میں تھک گئی ہوں ” رانیہ نے سر جھکا کر کہا

” اپنی تھکن دور کر دو “

” کیسے ؟ ”

” آخر تم مان کیوں نہیں لیتی ؟ ”

” کیا ؟ ”

” کہ تمہیں اسفند یار سے پیار ہے ”

” نہیں ”

” یہی سچ ہے ”

” نہیں ، پہلے ایسے نہیں تھا ، تو اب کیسے ہو گیا ”

” پہلے نہیں تھا اب ہو گیا ہے “

” نہیں ”

” یا تو اس بات کو مان لو اور جا کر بتا دو اپنا جواب اسفند یار کو اگر نہیں تو بیٹھی رہو پریشانی میں مبتلا ہو کر ”

” مجھے علم ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ”

وہ آئینے میں دیکھتے ہوۓ خود سے گفتگو میں مگن تھی ایسے لگتا تھا جیسے اس کا سراپہ یا سراب اس سے بات کر رہا ہے اس کی باتوں کو جواب دے رہا ہے اس سے اپنے سوالات کا جواب مانگ رہا ہے ۔ وہ خاموش ہو گئی وہ رکی نہیں۔ چادر اٹھائی اور نکل گئی اپنی راہ پر ۔

 

” سنو ! ” رانیہ کا یہ کہنا تھا کہ اسفند یار نے نظریں اٹھا کر اس کی جانب دیکھا ( نہ جانے کتنے دنوں کے بعد گلی میں آج چاند نکلا )

وہ کالی چادر میں لپٹی ہوئی بڑی بڑی آنکھوں سے اسفند یار کو گھور رہی تھی

” مجھے تم سے کچھ کہنا ہے ” کالی چادر نے اس کے چہرے کو اس طرح سے ڈھانپا تھا کہ اس کا چہرہ آدھا مگر ترچھا نظر آ رہا تھا۔

 ” جی – – – فر – – فرمائیے ” اسفند یار نے بوکھلاۓ ہوۓ جواب دیا کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ رانیہ آج ایسے کالی چادر میں لپٹی ہوئی آۓ گی ، انجان بن کر ، بنا بکریوں کے ، بنا کسی سہیلی کے ، بنا کسی فرد کے

وہ اپنی جس چٹان پر بیٹھا تھا اٹھ کھڑا ہوا جبکہ اسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا مشکل لگ رہا تھا جس طرح کا روپ دھار کر رانیہ اچانک نازل ہوئی تھی اسے کچھ غلط ہونے کا اندیشہ ہونے لگا

” تم جادو گر ہو ؟ ” رانیہ کا سوال

” نہیں ” ایک لفظی جواب

” پھر کون ہو ؟ ”

” اسفند یار ” ایک لفظی جواب

” کوئی جادو کروایا ہے تم نے مجھ پر ؟ ”

” نہیں ، رب کی قسم ” اسفند یار اس سوال سے ڈر گیا تھا

” پھر کیوں میں ہر وقت تمہارے خیالوں میں کھوئی رہتی ہوں ۔ تمہاری سوچوں میں گم ہو جاتی ہو ، تمہاری کمی محسوس ہوتی ہے ، چاہنے کے بعد بھی تم سے دور رہنے کی کوشش کی مگر سب بیکار ”  جہاں رانیہ کی آنکھیں بھیگ گئی تھی ، وہاں اسفند یار کے چہرے پر مسکراہٹ نے جگہ لے لی ، نہ جانے کتنے دنوں کے بعد اس کے دل کو قرار آیا تھا ، اسے سکون ملا تھا

 

” مجھ سے شادی کر لو نہ پھر ” اسفند یار نے رانیہ کی آنکھوں میں دیکھا

” ابا سے بات کر لو ” یہ کہہ کر وہ رکی نہیں تھی ، چہرہ چادر میں چھپاۓ ، نظریں جھکاۓ ، بس بھاگتے گئی جب تک گھر نہ آ گیا

” شکر الحمداللہ رب العالامین ”

اسفند یار وہی سجدے میں گر گیا

” واہ ربا کیا بات ہے یار ” آنکھوں میں آنسو ہونٹوں میں مسکراہٹ لۓ اسفند یار نے کھلے آسمان کی جانب دیکھا

” اوۓ

” حماد ”

” گل بن گئی یار ”

” کڑی من گئی یار ” وہ اونچی آواز میں بولتا ، بھاگتا ہوا کوارٹر کی جانب دوڑتا گیا

” او ہو یار ، ایک بات تو رہ ہی گئی “

اسفند یار جہاں تھا وہی سے دوبارہ سے پیچھے مڑا اور اسی چٹان کے پاس پہنچ گیا

” یہ تو انھیں بتانا ہی بھول گئی کہ کل لازمی آنا ” رانیہ بھی وہیں سے مڑی اور چٹان کے پاس پہنچ گئی

دونوں نے ایک دوسرے کو آمنے سامنے پایا اور ہنسنے لگے ، دونوں کے درمیان دس فٹ کی دوری تھی ،

دھماکہ!!!

اس سے پہلے کہ وہ دونوں کچھ کہتے رانیہ نے اپنی بایئں جانب اور اسفند یار نے دایئں جانب دیکھا تو دھماکہ ہوا تھا

” لگتا پاکستان آزاد ہو گیا ” اسفند یار کے دل سے ایک آواز نکلی

دونوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ دونوں کے چہرے فکر مند تھے

” رانیہ ”

” رانیہ میرے ساتھ چلو ” اسفند یار کو سامنے سے آتے ہوۓ لوگوں کی بھیڑ نظر آئی

” یہ—یہ کیا ہو رہا ” رانیہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے

” کچھ— کچھ نہیں ہوا ، میرے ساتھ چلو بس ” اسفند یار نے جیسے ہی رانیہ کا ہاتھ پکڑا رانیہ نے ہاتھ چھڑوا لیا

” اماں ، ابا ” اس نے کہا اور بھاگتی گئی بھاگتی گئی ، اسفند یار بھی اس کے پیچھے بھاگا لیکن لوگوں کا ایک بہت بڑا گروہ بیچ میں آ گیا ،اور پھر

اسفند یار کہاں

اور

رانیہ کہاں

اور

 ان کی

محبت

کہاں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” دادو جان ”

” آپ رو رہی ہیں؟ ”

” کیا ہوا ٹھیک ہیں آُپ ؟ ” انابیہ نے دادو جان کا ہاتھ تھاما

” ہاں بیٹا ٹھیک ہوں بس جب بھی وہ دن آنکھوں کے سامنے آتا ہے آںسوں بہنے لگتے ہیں ” دادو اٹھی اور بالکونی میں جا کھڑی ہوئی ، آسمان کی جانب چہرہ اٹھا کر نیلے آسمان پر بکھرے تاروں کی سمت دیکھا اور شکایت کی ۔

” بہت جلدی چلے گئے ہیں آپ ” رانیہ اسفند یار کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

” کیوں مجھے اکیلا کر گئے ہیں آپ ؟ ” آنکھوں سے آنسو بہہ گۓ

 ” جنت میں نہ آپکا کان پکڑ کر پوچھوں گی اتنی جلدی کیوں گۓ تھے ” رانیہ اسفند یار روتے روتے ہنس پڑی

” پوچھ لیجیئے گا دادو جی ” انابیہ کی آواز گونجی

” ہاہاہا” دادو جان ہنس پڑیں

” بلکہ میں بھی آپ کے ساتھ دادا جان سے پوچھوں گی ”

انابیہ نے ماحول کو ٹھیک کرنا چاہا اور کامیاب ہو گئی ، دادو ہنس پڑی

” اچھا دادو جان آگے بتاۓ ، پھر کیا ہوا ؟ “

” پھر ” رانیہ اسفند یار نے کہا اور ایک بار پھر اپنی محبت کی کہانی میں گم ہو گئی                                    ————

” اماں “

” ابا ” رانیہ بھاگتی ہوئی اپنے گھر کے دروازے پر پہنچی

” کہاں گئی تھی تو ” اباں چیخ پڑے

” چلیں جلدی کریں ، یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے ” اماں کی آواز گونجی

ابا نے دو صندوق پکڑے تھے جبکہ اماں نے دوپٹے کی گٹھری

وہ ریل گاڑی میں بیٹھے اور لاہور پہنچ گۓ ، لاہور پہنچتے ہی ایک بڑے بنگلے پر قبضہ کر لیا اور

” مجھے لگتا ہے یہ قبضہ جائز ہے کیونکہ ہم بھی وہاں اپنی زمیںیں مفت چھوڑ کر آۓ تھے ۔ ” دادو جان نے کہا

” پھر تو وہ زمینیں کسی نے لے لی ہونگی نہ ” انابیہ نے سوال کیا

 ” نہیں بیٹا جو ہمارا گھر تھا نہ کشمیر میں وہ اسفند یار نے خرید لیا تھا ، وہ اپنے گھر کے چودھری تھے ، اور جس بنگلے پر ہمارے ابا نے قبضہ کیا تھا ، ایک سال بعد پتہ چلا کہ وہ بنگلا اسفند یار کا تھا سو ہم نے خرید لیا اور رجسٹری اپنے نام کروا لی “

” دادو جان پھر آپ اور داداجان کب ملے تھے ؟ ” انابیہ نے سوال کیا

” دس سال بعد “

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                             

” پتہ نہیں بس کب آۓ گی ؟ ” رانیہ بس سٹیشن پر کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھی، وہ اب  اٹھائیس برس کی تھی

” صاحب گاڑی خراب ہو گئی ہے ، زیادہ دیر لگے گی ” ڈرایئور نے اسفند یار کو بتایا

” چلو کوئی نہیں ، میں بس سے چلا جاتا ہوں ” وہ اب بتیس برس کا تھا

اسفند یار اور رانیہ دونوں ساتھ ہی کھڑے تھے مگر دونوں کے چہرے مختلف جانب تھے ، جب ٹکراۓ تو مانو جیسے قیامت آ گئی ہو

“را– رانیہ ” اسفند یار بوکھلایا ہوا بولا

” آ—آپ” رانیہ نے کہا

” کہاں تھی تم ؟ ” وہ اونچی آواز میں بولا
” کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا میں نے تمہیں ” اسفند یار اپنے حواس کھو بیٹھا تھا

لوگ ان دونوں کی جانب متوجہ ہونے لگے

” میں نے بھی بہت انتظار کیا ہے ” رانیہ کی آںکھوں سے آنسو بہنے لگے

” او مائی گوڈ ” اسفند یار سر پکڑ کر زمیں پر بیٹھتا چلا گیا ، اسے دیکھتے ہوۓ رانیہ بھی زمیں پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی ، لوگوں کی بھیر جمع ہو گئی تھی ، دونوں  نے کافی دیر تک ایک دوسرے کی آنکھوں میں اپنا سراپہ دیکھا

” اٹھو ” اسفند یار جھٹ سے اٹھ کھڑا ہوا

” کیا ؟ ” رانیہ نے کہا

” اٹھو اٹھو ، جلدی اٹھو ” اسفند یار نے کہا اور رانیہ جیسے ہی اٹھی تو اس کا ہاتھ پکڑ کر تیز قدموں کے ساتھ چلنے لگا

” ہم—ہم کہاں جا رہے ہیں ” رانیہ اسفند یار کے ساتھ کھینچتی ہوئی جا رہی تھی

” مسجد ” ایک لفظی جواب

” کیوں؟ ” رانیہ نے نا سمجھی سے پوچھا

” نکاح کرنے ” اسفند یار نے کہا

” کیا ” حیرانی میں مبتلا ہو کر رانیہ نے کہا

” میں اور رسک نہیں لے سکتا ”

” نہیں ” رانیہ نے کہا

” کیوں ؟ ، اب یہ نہ کہنا کہ تم نے شادی کر لی ، میں نے ابھی تک شادی نہیں کی تو تم کیسے کر سکتی ہو ؟ ” اسفند یار آج کچھ بھی سننے کی حالت میں نہیں تھا

” میری بات تو سنیں ” اس سے پہلے کہ رانیہ کچھ کہتی اسفند یار بول پڑا

” میں مار ڈالو گا تمہارے شوہر کو ، اور جب تمہاری بیوہ ہونے کی عدت پوری ہو جاۓ گی تو میں تم سے فوراً شادی کر لوں گا ، لیکن میں اب رسک نہیں لے سکتا ” اسفند یار کہہ رہا تھا اور رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ جنونیت میں کیا کچھ بول چکا ہے

” کیا ہو گیا آ پ کو ؟ دماغ ٹھیک ہے آپکا ” رانیہ کو بل آخر اونچی آواز میں بولنا پڑا

” نہیں ، میرا دماغ ٹھیک نہیں ہے ، تمہیں اندازہ ہے اس بات کا کہ ایک ایک دن ، ایک ایک رات میں نے کیسے گزاری ہے ، کس کرب سے گزرا ہو میں میرا پاگل بننا بنتا ہے رانیہ ” اسفند یار اب نرم پڑ چکا تھا

” مجھے اندازہ ہے ، جس کرب سے آپ گزرے ہیں اسی سے میں بھی گزری ہو”

وہ دونوں خاموش ہو گۓ

” شادی نہیں کی میں نے ابھی تک ”

” ابا سے بات کر لیں ” رانیہ مسکرا اٹھی

” ابھی چلو ” اسفند یار ہنس پڑا  

کہ اتنے میں بس آ گئی اور دونوں نے ایک ساتھ والی سیٹ میں بیٹھ کر بہت سی باتیں کی ۔

 

مہینہ بعد اسفند یار اور رانیہ کا نکاح ہو چکا تھا ، رانیہ اب رانیہ اسفند یار ہو چکی تھی ، ایک پل میں رانیہ کا سربراہ بدل چکا تھا لیکن رانیہ اور اسفند یار دونوں کے والدین مطمئن تھے ، رانیہ ، اسفند یار بہت خوش تھے انھیں دس سالوں بعد ان کے دلوں کا سکون حاصل ہوا تھا ، رب بھی راضی تھا ، کیونکہ ان دونوں نے صبر کیا تھا ، کوئی غلط قدم نہیں اٹھایا تھا ، اپنی حدیں پار نہیں کی تھی ، اسلام سے جائز طریقے  سے محبت نبھائی تھی اور رب راضی ہو گیا دونوں کو ان کی محبت سے نواز دیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                          

ان کا نکاح وہی ہوا تھا جہاں وہ پہلی بار ملے تھے ،

کشمیر کی وادیوں میں

کشمیر کے پہاڑوں میں

نکاح دوپہر میں تھا اور اب شام پر چکی تھی وہ دونوں پہاڑوں کے بیچ تنہا کھڑے تھے لیکن پھر بھی وہ تنہا نہیں تھے ، وہ دونوں اسی پہاڑی کے نیچے کھڑے تھے جہاں وہ پہلی بار ملے تھے ۔

” اسفند یار ” رانیہ نے پکارا

” جی بیگم ” اسفند یار نے پیار سے کہا کہ رانیہ ہنس پڑی

” میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہو ” رانیہ نے کہا

” جی ” اسفند یار

” میں نے آپ سے شادی کر لی ہے ”

” میں آپکی دلہن بن گئی ہوں ”

” جی میں تمام عمر آپکا ساتھ نبھاؤں گی “

” میں تمام عمر آپ کی ہم سفر رہ کر وفا نبھاؤں گی “

” آپ کے کام پر چلے جانے کے بعد ، آپ کے لیے اچھا سا کھانا بناؤ گی “

” میں آپکو کہوں گی ‘ جلدی آنا ‘ “

” میں آپ کو کہوں گی ‘ میں آپکا انتظار کرو گی ‘ “

” میں آپ کے چھوٹے سے گھر میں خوشی سے رہو گی “

” میں آپکے گھر کی بالکونی میں کھڑے ہو کر آپکا انتظار کیا کرو گی “


” میں آپکا لوٹ آنے کا انتظار کروں گی “

“جب کبھی آپ پریشان ہو کر تھک ٹوٹ کر گھر آئیں گے تو میں آپکا دل بہلاؤ گی “

” دل خوش کر دیا ہم سفر ، ایسے جیسے دنیا کا سار سکون اور ساری خوشیان مجھے آکر مل گئی ہیں ” اسفند یار نے آنکھیں بند کیں اور رب کا دل سے شکر ادا کیا

” ویسے تمہیں سارے سوال یاد تھے ” اسفند یار نے محبت سے پوچھا

” جی ” رانیہ اور اسفند یار دونوں کی آنکھوں میں ایک دوسرے لے لۓ محبت تھی                                ————

 

باقی تین سوال رہتے ہیں

” میں نے ہماری آنے والی نسل کو ہمارے وفا اور محبت کی کہانی سنائی ہے اسفند یار “

” میں نے ہماری کہانی سناتے ہوۓ آنکھوں مین آنسو لاۓ ہیں ”

” اور آپ سے جلدی چلے جانے کی شکایت بھی کی ہے ” رانیہ اسفند یار ابھی بھی بالکونی میں کھڑی نیلے آسمان پر بکھرے تاروں کی جانب دیکھ کر دل ہی دل میں جواب دے رہی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                               

” لیکن دادو یہ آپکی محبت نہیں عشق تھا ” انابیہ نے کہا

” نہیں بیٹا ، عشق بہت پاک اور اعلٰی مقام رکھنے والی چیز ہے ” دادو جان نے کہا

” بیٹا عشق انسانوں کو نہیں ہوتا ، عشق ولیوں کو رسولوں کو ، نبیوں کو ہوتا ہے جو پاک ہوتے ہیں جن کی سوچ پاک ہوتی ہے جنھوں نے کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا جنھوں نے عشق کیا اور اسی میں گم ہو گۓ

” عشق اس دنیا کے انسانوں کے لۓ نہیں ہے ، عشق ان کے لۓ نہیں بنایا گیا ،اس دنیا کے لوگوں کو صرف پیار ہوتا ہے جو اکژر ایک مدت کے بعد یا تو ختم ہو جاتا ہے یا کم ہونا شروع ہو جاتا ہے ، دنیا کے اسَی فیصد لوگوں کو پیار ہوتا ہے جبکہ بیس فیسد لوگوں کو محبت ہوتی ہے جو ایک دوسرے کے لیے زندگیاں گزار دیتے ہیں لیکن وفا کرتے ہیں ، جو ایک دوسرے کے لۓ جان دیتے ہیں ”

” اور ہاں انسان کو عشق اپنے وطن سے ہو سکتا ہے اپنے اسلام سے ہو سکتا ہے اور وہ بھی وب مانا جاۓ جب وہ اپنے اسلام اوہ اپنے پرچم کی خاطر جان دے دے ”

” بیٹا دوبارہ یہ نہ کہنا عشق بہت پاک ہے ”

” عشق تو انھیں تھا جن کے جوان اٹھارہ سال کی عمر کے بیٹے حخرت علی اکبر ؑ نے قربانی دی جن کے چھ مہینے کے بچے حضرت علی اصغر نے قربانی دی ، عشق انھیں تھا جنھوں نے گردنیں کٹوا کر قران پاک کی تلاوت کی ”

سلام ان سب عاشقوں کو ان کے لۓ میرا تن من سب کچھ قربان ، ہم تو ان کے پیروں کی خاک کے ایک زرے کے برابر بھی نہیں ۔ 

 

Welcome to Urdu Novels Universe, the ultimate destination for avid readers and talented authors. Immerse yourself in a captivating world of Urdu literature as you explore an extensive collection of novels crafted by creative minds. Whether you’re seeking romance, mystery, or adventure, our platform offers a wide range of genres to satisfy your literary cravings.

Authors, share your literary masterpieces with our passionate community by submitting your novels. We warmly invite you to submit your work to us via email at urdunovelsuniverse@gmail.com. Our dedicated team of literary enthusiasts will review your submissions and showcase selected novels on our platform, providing you with a platform to reach a wider audience.

For any inquiries or feedback, please visit our Contact Us page here. Embark on a literary adventure with Urdu Novels Universe and discover the beauty of Urdu storytelling

Writer's other novels:


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *