Read Online
دور حاضر کا پھیلتا ہوا فتنہ از قلم ایمن شاہد
آج جس موضوع
پر میں نے قلم اٹھایا ہے بہت ہی حساس موضوع ہے لیکن اگر اس پر بات نہ کی گئی تو
بہت بڑا ظلم ہوگا۔ اس موضوع پر اپنا قلم نہ اٹھایا تو ڈر ہے کہ یہ بروز حشر میرے
خلاف گواہی نہ دے دے۔
تو چلتے ہیں
اپنے موضوع کی طرف۔ آج کے دور میں معاشرے میں پھیلتا ہوا سب سے بڑا فتنہ۔ جس کو
کافروں نے اس طریقے سے ہمارے اندر پھیلا دیا ہے کہ کسی کو بھی اس فتنے سے ڈر نہیں
لگتا۔ کسی کو بھی قوم لوط کے انجام سے عبرت حاصل نہیں ہوتی۔
جی ہاں! میں
بات کر رہی ہوں (ایل۔جی۔بی۔ٹی۔کیو) کی۔ سب سے پہلے تو اس ٹرم کو اچھے سے جان لیتے
ہیں کہ یہ ہے کیا؟
L:
Lesbian ہم جنس پرستی عورت کی عورت کے ساتھ۔
G:
Gay ہم
جنس پرستی مرد کی مرد کے ساتھ۔
B:
Bisexual کسی
بھی صنف کا مرد اور عورت دونوں کی طرف مائل ہونا۔
T:
Transgender مخنث۔۔یہ وہ لوگ ہیں جو پیدا تو مرد
یا عورت ہوتے ہیں لیکن بڑے ہونے پر اپنی صنف تبدیل کروا لیتے ہیں۔
Q:
Queer عجیب
اس کے علاوہ
اگر بات کی جائے Transgender or Intersex کی۔ تو یہ دو علیحدہ ٹرمز ہیں لیکن ہمارا
معاشرہ ان کو ایک ہی چیز سمجھتا ہے۔
پہلا لفظ Intersex کا مطلب ہے خنثیٰ۔
اب زرا اس
کی بھی وضاحت کر دوں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟
خنثیٰ اس
شخص کو کہتے ہیں جو پیدائشی طور پر نہ تو خالص مرد ہو اور نہ ہی خالص عورت، یا پھر
وہ شخص جس میں مرد و عورت دونوں کے اعضاء ہوں۔
جبکہ Transgender سے مراد ایسے لوگ جو پیدائش کے وقت کی اپنی
جنس سے خود کو مختلف یا متضاد سمجھتے ہوں۔ اور مختلف شناخت کروائیں۔
اسلام Intersex لوگوں کی مکمل تائید کرتا ہے لیکن Transgenders کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ خدارا اس
فرق کو سمجھیں!
کیا کبھی ہم
نے یہ سوچنے کی ضرورت محسوس کی کہ یہ فتنہ آیا کہاں سے؟ اس کو مسلمانوں میں کس نے
پھیلایا؟
چلیں اس سے
پہلے کچھ حقائق کو دیکھ لیتے ہیں جو بظاہر تو نظر نہیں آتے لیکن اگر عقل و شعور
رکھنے والا انسان کچھ دیر بیٹھ کر سوچے تو یقیناً سب چیزوں پر سے پردہ ہٹ جائے۔
1947
میں جب پاکستان آزاد ہوا تو اس کی بہت مخالفت کی گئی۔ ان کی مخالفت کسی کام نہ آئی
تو پاکستان پر خفیہ حملے کیے گئے۔ جن کو ہماری بہادر فوج نے اور اس وقت کی عوام نے
فوج کا ساتھ دے کر دشمن کو منہ توڑ جواب دیا۔ اس کے بعد کافی عرصے تک دہشت گردی
پھیلائی گئی۔ دہشت گردی کے خلاف بھی ہماری فوج نے آپریشن کیے جو کامیاب ٹھہرے۔ جب
یہ تمام بیرونی طاقتیں اور دشمن ممالک ہم پر قبضہ کرنے میں ناکام ہو گئے تو ایک
نئی چال کھیلی گئی۔ جس کو سمجھنے کے لیے عقل و شعور کا ہونا لازمی ہے۔
اب آپ سوچ
رہے ہوں گے کہ موضوع کو چھوڑ کر میں کہاں پہنچ گئی ہوں؟ مجھے اپنا موضوع بہت اچھے
سے یاد ہے لیکن اس پر بات کرنے سے پہلے زرا کچھ اور باتیں بھی جان لیں۔
اب وہ چال
کیا تھی؟
جب پاکستان
ایٹمی طاقت بن گیا تو پھر تو ان ممالک کا پاکستان پر حکومت کرنے کا خواب مٹی میں
مل گیا۔ لیکن پاکستان پر قبضہ کرنے سے بھی زیادہ بری چال جو چلی گئی وہ تھی عوام
کے دماغوں کے ساتھ کھیلنا، ان کے اذہان تبدیل کرنا، ان کو اسلام سے دور کرنا، ان
میں فحاشی اور بے حیائی کو اس حد تک پھیلا دینا کہ ان کو یہ سب فیشن لگنے لگے۔ وہ
اپنا سنہرا ماضی بھول جائیں، نئی نسل میں اس بے حیائی کو اس طرح سے متعارف کروایا
گیا کہ وہ اپنے اسلاف کو بھول گئے۔ وہ بھول گئے کہ ہمارے نبی ﷺ ہمارے لیے کیا
پیغام لے کر آئے تھے۔ کافروں نے بے حیائی کا ایجنڈا اس طریقے سے، اس سوچی سمجھی
چال کے تحت پھیلایا کہ اولاد تو اولاد ماں باپ بھی اس کو فیشن کہنے لگے۔ یہ سکیم
اس طرح پھیلائی گئی کہ عقل پر پردے پڑ گئے۔ کہنے کو تو یہ قوم مسلمان ہے لیکن
افسوس صد افسوس کہ ان کا کوئی ایک کام بھی مسلمانوں والا نہیں ہے۔ یہ قوم ٹک ٹاک،
فیس بک اور انسٹاگرام پر رقص کر کے فالوورز اور لائکس اکٹھے کرنا فیشن سمجھتی ہے
اور ان میں بیشتر تعداد لڑکیوں کی ہے۔ ان لڑکیوں کے باپ اور بھائی کی غیرت مر چکی
ہے۔
جب یہ قوم
ان کی طرح کے کام کرنے لگی، بے حیائی والی ڈریسنگ کرنے لگی۔ غرض کہ ان کا یہ پلان
کامیاب ہوا تو اگلے منصوبے پر عملدرآمد شروع ہوا اور وہ منصوبہ تھا
ایل-جی-بی-ٹی-کیو کو عدالت سے قانونی طور پر پاس کروانا۔ پھر آتے ہیں ان قانون کے
رکھوالوں کی طرف۔ جو صرف نام کے رکھوالے ہیں۔ انہوں نے کیا کیا؟ اس بل کو پاس
کردیا قانونی طور پر کہ ایک مرد دوسرے مرد سے اور ایک عورت دوسری عورت سے شادی کر
سکتے ہیں۔ چلیں ان کو تو شرم حیا ہے ہی نہیں۔ غیرتِ ایمانی مرچکی ان کی۔ ہماری قوم
نے کیا کیا؟
اس قانون کی
مخالفت کرنے کی بجائے بڑے دھڑلے سے اس کی پاسداری اپنے اوپر فرض کرلی۔ ویسے کبھی
اس قوم نے کسی قانون کا پاس رکھا ہو یا نہ رکھا ہو لیکن اس کو بہت شوق سے اپنا
لیا۔
اگر ہم میں
ذرا سا بھی ایمان ہوتا تو ہم اس کے خلاف سڑکوں پر نکل آتے، احتجاج کرتے، تو کسی
میں اتنی ہمت تھی کہ وہ زبردستی اس کو ہم پر لاگو کر سکتا؟ یقیناً نہیں!
تو اس سب کو
قبول کرنے کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ کہ ہم ذہنی طور پر کافروں کے غلام بن
چکے ہیں۔ ہم نے دین کو پس پشت ڈال دیا۔ قرآن کو صرف اونچی جگہ پر رکھ کر سمجھا کہ
حق ادا ہوگیا۔
کیا آپ کے
دماغ میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ انہوں نے اپنے منصوبے کو کامیاب کرنے کے لیے
پس پردہ نہ جانے کتنا پیسہ لگایا ہو؟
اس فتنے کو
مزید ہوا دینے کے لیے پاکستان کی خواتین
یونیورسٹیز میں ٹرانس جینڈرز کو داخلہ دیا جانے لگا ہے۔
ایڈمنسٹریشن
کی طرف سے کی گئی اس نئی تبدیلی کو خاموشی سے لاگو کیا جارہا ہے اور ان یونیورسٹیز
کی طالبات کو بھی اس مسئلے پر بات کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے اور تنبیہہ کی
گئی ہے کہ اگر طالبات نے اس پر بات کی تو سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔ جس کی وجہ سے
انتہائی حساس نوعیت کے اس مسئلے سے لوگ بے خبر ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اس فتنے کو
پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ صرف خاموش بیٹھے تماشہ دیکھ
رہے ہیں۔ جب قوم لوط نے اس بد فعلی کو اپنایا تو کیا ہوا؟
چلیں ذرا
یہاں ان کا واقعہ بھی بیان کر دیتی ہوں۔
“حضرت
لوط علیہ السلام اپنے چچا ابراہیم علیہ السلام کی اجازت اور حکم سے ان کا علاقہ
چھوڑ کر (غورزغر) کے علاقے سدوم شہر میں آباد ہو گئے تھے۔ یہ علاقہ آباد اور کئی
بستیوں پر مشتمل تھا۔ یہاں کے رہنے والے لوگ فاسق و فاجر اور بد ترین کافر تھے۔
اور سیرت کردار میں تمام دنیا سے بد ترین تھے۔ راہ گیروں کو لوٹتے اور مجلسوں میں
برا کام کرتے تھے۔ اور ایک دوسرے کو برے کام سے نہ روکتے تھے بلکہ وہ خود بھی وہ
برا کام کر گزرتے تھے، بد ترین کردار و عمل والے لوگ تھے اور انہوں نے ایسی بے
حیائی کے کام کی بنیاد ڈالی۔ جو ان سے پہلے کسی کے تصور و خیال وہم و گمان میں بھی
نہ تھی۔ وہ لڑکوں سے بد فعلی کرتے تھے اور عورتوں کے قریب نہ جاتے تھے۔ جبکہ
عورتوں سے نکاح کر کے ان سے متمتع ہونے کا حکم اللّٰہ نے دیا ہے۔
حضرت
جبرائیل علیہ السلام چند فرشتوں کو ہمراہ لے کر مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام
کے پاس پہنچے اور یہ سب فرشتے بہت ہی حسین اور خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تھے۔ قوم
کے بد فعلوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور ان مہمانوں کے
ساتھ بد فعلی کے ارادہ سے دیوار پر چڑھنے لگے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں
کو سمجھانا اور اس کام سے منع کرنا شروع کر دیا۔ مگر یہ بد فعل اور سرکش قوم باز
نہ آئی۔ تو آپ اپنی تنہائی اور مہمانوں کے سامنے رسوائی سے تنگ دل ہو کر غمگین و
رنجیدہ ہو گئے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ مومنین اور اپنے اہل و
عیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے قبل ہی اس بستی سے دور نکل جائیں اور خبردار کوئی
شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے ورنہ وہ بھی اس عذاب میں گرفتار ہو جائے گا۔ پھر حضرت
جبرائیل علیہ السلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اٹھا کر آسمان کی
طرف بلند ہوئے اور کچھ اوپر جا کر ان بستیوں کو الٹ دیا اور یہ آبادیاں زمین پر گر
کر چکنا چور ہو کر زمین پر بکھر گئیں۔ پھر پتھروں کا مینہ برسا اور اس زور سے سنگ
باری ہوئی کہ قوم لوط کے تمام لوگ مر گئے اور ان کی لاشیں بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر
بکھر گئیں۔ عین اس وقت جب یہ شہر الٹ پلٹ ہو رہا تھا۔ حضرت لوط علیہ السلام کی ایک
بیوی جس کا نام “واعلہ” تھا جو در حقیقت منافقہ تھی اور قوم کے بدکاروں
سے محبت رکھتی تھی۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھ لیا اور یہ کہا کہ “ہائے رے میری
قوم۔” یہ کہہ کر کھڑی ہو گئی۔ پھر عذاب الٰہی کا ایک پتھر اس کے اوپر بھی گر
پڑا اور وہ بھی ہلاک ہو گئی۔”
ہم اس فتنے
کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟ کیوں ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟ جانتے ہیں
ظلم کے خلاف خاموش رہنا بھی ظلم ہے۔ کیا ہم اللّٰہ کے کسی عذاب کا انتظار کر رہے
ہیں؟ یا پھر آپ یہ انتظار کر رہے ہیں کہ امام مہدی آئیں گے اور آپ کو اس فتنے سے
بچائیں گے؟ کیا ہمارا ایمان اتنا مظبوط ہے کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہو سکیں؟ جو آج ان
فتنوں کا شکار ہو رہے ہیں وہی سب سے پہلے دجال کے فتنے کا شکار ہوں گے۔
خدارا! اس
فتنے کے خلاف آواز اٹھائیں۔ چپ چاپ تماشہ مت دیکھتے رہیں۔ بروز حشر ہمیں اللّٰہ کے
سامنے بھی جواب دہ ہونا ہے کہ ہم نے اس فتنے کو روکنے کے لیے کیا کیا؟ کیا تب آپ
کوئی جواب دے سکیں گے؟
ایک بار
سوچیئے گا ضرور!!
Welcome to Urdu Novels Universe, the ultimate destination for avid readers and talented authors. Immerse yourself in a captivating world of Urdu literature as you explore an extensive collection of novels crafted by creative minds. Whether you’re seeking romance, mystery, or adventure, our platform offers a wide range of genres to satisfy your literary cravings.
Authors, share your literary masterpieces with our passionate community by submitting your novels. We warmly invite you to submit your work to us via email at urdunovelsuniverse@gmail.com. Our dedicated team of literary enthusiasts will review your submissions and showcase selected novels on our platform, providing you with a platform to reach a wider audience.
For any inquiries or feedback, please visit our Contact Us page here. Embark on a literary adventure with Urdu Novels Universe and discover the beauty of Urdu storytelling
Writer's other novels:
- phool zulfon mn by Falak Tanveer
- meena qasai or bakra Eid by Sumbal Tauseef
- chand raat by Samavia Khan
- naveed e eid by Aneeza Syed
- letter box by Asiya Raees khan
0 Comments