Pakistan k naam per hasil ki gayi is riyasat k baray main All India Muslim League nay jo khawab dekhay thay… Agar wo is riyasat ka majooda naqsha dekh letay to shyd wo apnay khawab say dastbardar ho jatay. Quaid-e-Azam k sath India k musalmanon nay jis mulk ka khawab dekha tha, yehh wo mulk to hergiz nahi ho sakta. Jis mulk main basnay k liay hamaray baap dada nay apni jageerain chodi thien, apna ghar baar, apnay roozgar tark kiye thay. Yehh wo mulk to nahi ho sakta. Hum nay angrezon say azadi hasil kar li. Lakin aik aam admi aj bhi ghulam hai. Kabhi kisi sarkari daftar main koi kam pada ho to ap ko samjh main aa jaiay ga k main kia kehna chahta hn. Hamaray sarkari daftaron main bethay aam say clerk khud ko khuda samnjhana shuru kar detay hain. Aik police constable, khud ko awam ka lord samjhanay lagta h. Hamaray hukmaran aur Bureaucrats khud ko taqat ka manba samjhanay lagtay hain…. Yahan her shakhas ko dosron k baray main sochna paday ga… Tub hi yehh mulk taraqi kar sakay ga… Warna yehh khawab, khawab hi reh jaiay ga….
Read Online
وہ گاؤں زیادہ بڑا نہ تھا۔ گاؤں میں بسنے والے سِکھوں اور مسلمانوں کی تعداد برابر تھی۔ گاؤں کے لوگ خوشحال تھے۔ گاؤں کے سب سے بڑے جاگیردار، سجن سنگھ اور اس کے چچا کے بیٹے تھے۔ سجن سنگھ کے دادا نے کئی سال پہلے یہاں تین ہزار ایکڑ زمین خریدی تھی۔ سجن سنگھ کے دادا دلّی میں کوئی بڑے کاروباری آدمی تھے۔ کاروبار میں گھاٹے کے بعد بقیہ دولت سمیٹی اور اس گاؤں میں آ کر زمین خرید لی۔
سجن سنگھ ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا۔ لیکن اس کے چچا کے پانچ بیٹے تھے۔ اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے سجن سنگھ کے حصے میں 1500 ایکڑ زمین آئی۔ یہی وجہ تھی کہ سجن سنگھ کو پورے علاقے کا ایک بڑا جاگیردار مانا جاتا تھا۔ آس پاس کے کئی علاقوں میں اس کے نام کی دھاک تھی۔ اس کی شاندار حویلی گاؤں سے ذرا باہر تھی۔ باپ کی وفات کے بعد سجن سنگھ اور اس کی ماں اس حویلی میں اکیلے رہ گئے۔ حویلی کی دیکھ بھال کے لیے ملازمین کی ایک فوج تھی۔
ایک دن شہر سے واپسی پر سجن سنگھ نے عرش پریت کو دیکھا۔ معصوم اور باوقار سی یہ لڑکی سجن سنگھ کو خوب بھائی۔ عرش پریت کو دیکھنے کے بعد اس نے عزت و احترام سے اس کے گھر رشتہ بھیجا، جو بنا کسی تردّد کے قبول کر لیا گیا۔ معمولی سے گھرانے کی لڑکی کو اس حویلی میں عزت و تکریم اور عیش و عشرت دیکھنے کو ملی۔ وہ بہت خوش تھی۔ پھر اس کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی۔ شادی کو ابھی ایک سال بھی نہ گزرا تھا جب سجن سنگھ ایک ٹرین حادثے میں چل بسے۔ عرش پریت کی تو دنیا ہی لُٹ گئی۔ جوان اولاد کا دکھ لے کر سجن سنگھ کی ماں بستر سے جا لگی۔ سجن سنگھ کے مرنے کے بعد، دور پار کے کئی رشتہ دار جائیداد کے وارث کے طور پہ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ لیکن اس جاگیر کا قانونی وارث عرش پریت اور سجن سنگھ کی ماں کو ٹھہرایا گیا۔ کچھ ماہ بعد اس کے گھر بیٹی نے جنم لیا۔ محبوب شوہر کی جدائی نے اس کی روح پہ بڑا گہرا زخم لگایا تھا۔ اس کی بیٹی اس زخم پہ مرہم ثابت ہوئی۔ وہ شوہر کا غم بھولنے لگی۔ زندگی کی گاڑی چلتی رہی۔ ساس بیمار تھی۔ وہ خود تمام زمینوں کے معاملات دیکھنے لگی۔ اور اس چیز نے اسے پُر اعتماد بنا دیا۔ دو تین سالوں میں ہی اس نے سجن سنگھ کی جگہ لے لی۔ لوگ گاؤں کے معاملات میں اس کی رائے لینے لگے۔
پھر ایک دن اس کی چار سالہ بیٹی بیمار ہو گئی۔ کئی ڈاکٹرز اور حکیموں سے اس کا علاج کروایا۔ وہ اسے دلی تک لے گئی۔ لیکن اس کی ننھی سی جان اس بیماری سے جانبر نہ ہو سکی۔ صدمہ بہت گہرا تھا۔ شوہر کی جدائی کے بعد اکیلے ہی سخت حالات کا مقابلہ کرنے والی عرش پریت سے اس کی واحد خوشی بھی چھن گئی۔ اس صدمے نے اسے اندر سے توڑ ڈالا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، اس کی چہرے پہ ایک سختی سی آنے لگی۔ شوہر کے مرنے کے بعد وہ زمانہ شناس تو ہو چکی تھی، لیکن اب اس کی شخصیت میں ایک رعب در آیا تھا۔ حویلی کی دیواریں اکثر ان دو عورتوں کو اپنی اپنی اولاد کا سوگ مناتے دیکھتی تھیں۔ ایک وہ ماں جو بستر پہ پڑے اپنے بیٹے کی یاد میں تڑپتی تھی۔ تو دوسری وہ ماں جو مردانہ وار حالات کی سختی کا مقابلہ کر رہی تھی۔ پھر اک شام، حویلی میں خوشی کی نوید لے کر اتری۔
_____________
26 اپریل، 1912ء
عرش پریت اپنے سامنے بیٹھی ثمینہ کی بات سن کر دنگ رہ گئی۔
“جس دن سے مجھے اس بچے کی خوشخبری ملی اسی دن سے میں نے اسے تمہاری امانت سمجھ کر اپنے پیٹ میں پالا ہے۔” ثمینہ کی بات عرش پریت کو حیران کر رہی تھی۔ جس جملے کو وہ بے دھیانی میں کہی گئی بات سمجھ کر بُھلا چکی تھی؛ اس کی دوست وہ قول نبھانے، اس کے سامنے موجود تھی۔
____________
ثمینہ اور عرش پریت تقریبا ہم عمر تھیں۔ ان کے گھروں کی دیواریں ملی ہوئی تھیں۔ بچپن ہی سے ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا۔ سو ان کی دوستی گہری ہوتی گئی۔ وہ ایک دوسرے پر جان نچھاور کرتی تھیں۔ پھر عرش پریت کی شادی ہوئی۔ ظاہری فاصلے ان کے دلوں میں فاصلے پیدا نہ کر سکے۔ ثمینہ اکثر اپنی دوست سے ملنے اس کی حویلی آتی رہتی تھی۔ پھر عرش پریت کے شوہر کا انتقال ہو گیا۔ اس دُکھ کی گھڑی میں وہ اپنی سہیلی کا غم بانٹنے کے لیے، اس کے ساتھ ہی تھی۔ وہ ہر طرح سے اس کی دل جوئی کرتی رہی۔
اس کے شوہر کی وفات کے کچھ ماہ بعد عرش پریت کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ بیٹی کی پیدائش پر عرش پریت بہت خوش تھی۔ اور ثمینہ اپنی دوست کو خوش دیکھ کر خوش ہو رہی تھی۔ سجن سنگھ کی وفات سے اب تک وہ مسلسل اذیت میں تھی۔ اُسے زندگی کی طرف لوٹتا دیکھ کر، ثمینہ مطمئن ہو گئی۔
کچھ عرصہ گزرا تو ثمینہ کی شادی فرید علی سے ہو گئی۔ فرید علی ریلوے میں ایک اعلیٰ عہدے پر ملازم تھا۔ اس کے علاوہ وہ زمیندار بھی تھا۔ فرید علی فطرتاً ایک اچھا انسان تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے ثمینہ اور عرش پریت کی دوستی پر کوئی اعتراض نہ ہوا۔
انہی دنوں عرش پریت کی بیٹی بیمار ہو گئی۔ عرش پریت اپنی بیٹی کی بیماری سے بہت پریشان تھی۔ اس کا علاج وغیرہ چل رہا تھا کہ ایک دن اس کی بیٹی انتقال کر گئی۔ ثمینہ کو جب یہ اطلاع ملی تو اس پر سکتہ طاری ہو گیا۔ یہ بات ناقابلِ یقین لگتی تھی۔ اور جب اس نے عرش پریت کی حالت دیکھی تو وہ مزید دُکھی ہو گئی۔ اس کی دوست سے وہ سہارا بھی چھن گیا، جس کے بل بوتے پر وہ اپنے شوہر کی جدائی کا غم سنبھالے ہوئے تھی۔ ثمینہ خود گہرے صدمے سے دوچار تھی۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کن الفاظ میں عرش پریت کو حوصلہ دے۔ آج تیسرا دن تھا اور عرش پریت بدستور گم صُم ایک کونے میں بیٹھی تھی۔ ثمینہ نے اس کا ہاتھ تھاما اور بات کا آغاز کیا۔
“دیکھ پریتو! تو حوصلہ کر۔ رب بھلی کرے گا۔ جب میرے گھر اولاد پیدا ہوگی، تو میرا وعدہ ہے کہ میں اسے تیری جھولی میں ڈال دوں گی۔” ثمینہ کی بات سن کر عرش پریت نے، ویران آنکھوں سے اپنی دوست کو دیکھا۔ وہ اپنا حوصلہ ہار بیٹھی اور اس کے کندھے پہ سر رکھ کے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
___________
12 جولائی، 1910ء
ثمینہ کے گھر بیٹا پیدا ہوا۔ فرید علی بہت خوش تھا۔ شادی کے تین سال بعد اسے اولاد کی خوشی ملی تھی۔ عرش پریت ایک ہفتہ ثمینہ کے پاس گزار کر واپس جا چکی تھی۔ وہ اپنی دوست کی خوشی میں خوش تھی۔ لیکن ثمینہ اس کی آنکھوں میں یاسیت کی لکیریں بخوبی دیکھ سکتی تھی۔ یہ بچے کی پیدائش سے دو ہفتے بعد کی بات ہے۔ فرید علی ثمینہ کے پاس بیٹھا، بچے سے کھیل رہا تھا۔ وہ یک ٹک فرید علی کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ فرید علی کو اس کی محویت کا احساس ہوا تو نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔
“کیا بات ہے ثمینہ؟ ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟” فرید علی کا چہرہ مسکرا رہا تھا۔ اپنے شوہر کی خوشی کو دیکھ کر اسے بات کرنا مشکل لگ رہا تھا۔
“مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنا تھی۔” اس نے گومگو کی کیفیت میں کہا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ بات کا آغاز کیسے کرے۔ فرید علی منتظر سا اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ مکمل طور پر اس کی طرف متوجہ تھا۔
“کہو ثمینہ کیا بات ہے؟” اس نے ثمینہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر نرمی سے کہا۔ ثمینہ کو بات کرنے کا حوصلہ ملا۔ اس نے کہنا شروع کیا۔
“جب پریت کی بیٹی فوت ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔” وہ پھر خاموش ہو گئی۔
“تم جو بھی کہنا چاہتی ہو، کہہ دو۔” فرید علی کا رویہ بہت نرم تھا۔
“میں نے اُس سے وعدہ کیا تھا کہ جب میرے گھر اولاد ہوگی، تو میں وہ اسے دے دوں گی۔” ثمینہ کی بات پوری ہوئی تو فرید بدک کر پیچھے ہٹا۔ وہ عجیب نظروں سے ثمینہ کو دیکھنے لگا۔ ثمینہ اس کی نظروں کی تاب نہ لا سکی۔ اس نے سر جھکا لیا۔
“بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے انتظار کے بعد ملنے والی خوشی میں کسی اور کی جھولی میں ڈال دوں؟ اتنا ظرف تو نہیں ہے میرا۔” فرید علی کے لہجے میں غصہ نہ تھا؛ بس بے یقینی تھی۔
“آپ تو جانتے ہیں کہ وہ کم عمری میں ہی بیوہ ہو گئی۔ پھر جب اس کی بیٹی اس کے زخموں کا مرہم بن کر آئی، تو قسمت نے اُسے بھی اُس سے جدا کر دیا۔ میں نے اس کی آنکھوں کے خالی پن کو بہت اندر تک محسوس کیا ہے۔ اور جب میں نے اسے اپنی اولاد دینے کا کہا تھا، تو مجھے ان خالی آنکھوں میں اُمید کا دیا جلتا نظر آیا۔ میں وہ دیا بُجھنے نہیں دینا چاہتی۔” ثمینہ آنکھوں میں آنسو لیے؛ رندھی ہوئی آواز میں کہے گئی۔ فرید علی سر پکڑے بیٹھا تھا۔ خاموشی کا ایک طویل وقفہ دونوں کے بیچ حائل رہا۔ پھر فرید علی وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔
اگلے دن وہ ثمینہ کے پاس آ کر بیٹھا۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے بات کا آغاز کیا۔
“دیکھو ثمینہ! یہ تو کسی صورت بھی ممکن نہیں کہ یہ بچہ ہم کسی کو بھی دے سکیں۔ امی ابو اس دن کے لیے بڑی شدّت سے منتظر تھے۔ میں ان کے چہرے سے وہ مسکراہٹ کیسے جدا کر دوں؟ جس کی وجہ یہ بچہ ہے۔ میں جانتا ہوں کہ پریت کن ادوار سے گزر رہی ہے۔ لیکن میں اتنی بڑی قربانی نہیں دے سکتا۔ مجھے اس آزمائش میں مت ڈالو۔” وہ ایک محبت کرنے والا شوہر تھا۔ بیوی کی خواہش کا احترام اس پر لازم تھا۔
“ہاں! یہ ممکن ہے کہ اس کے بعد جب ہمیں اللہ اولاد کی نعمت سے نوازے گا، تو ہم وہ پریت کو سونپ دیں گے۔” ثمینہ، جو فرید کی بات سن کر مایوسی میں چلی گئی تھی؛ یہ سن کر اس کے چہرے کی رونق بحال ہوئی۔
“ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔” ثمینہ نے پُرجوش لہجے میں شوہر کی تائید کی۔ اس کے لیے یہی کافی تھا کہ اس کا شوہر اس کی خاطر اپنی اولاد دینے کے لیے تیار ہو گیا۔ فرید علی، جو اس کے تاثرات بغور دیکھ اور جانچ رہا تھا؛ کہنے لگا۔
“میں حیران بھی ہوں اور تمہارے اس جذبے سے متاثر بھی ہوا ہوں۔ ایک عورت کے لیے اس کی اولاد سب کچھ ہوتی ہے۔ جبکہ تم دوست کی محبت میں اسے بھی قربان کرنے کا جذبہ رکھتی ہو۔ میں تمہارے اس لازوال خُلوص کی قدر کرتا ہوں۔” فرید علی نے اسے سراہنے والے انداز میں کہا۔
“اور مجھے پریت سے جلن بھی ہو رہی ہے۔” فرید نے یہ جملہ ہنستے ہوئے کہا۔ وہ ماحول کی کثافت کم کرنے کی غرض سے تھا۔ اس کی بات سن کر ثمینہ بھی ہنس دی۔
__________
26 اپریل، 1912ء
عرش پریت بے یقینی سے ثمینہ اور فرید علی کو دیکھ رہی تھی۔ جو کچھ ثمینہ نے کہا تھا وہ حیران کن تھا۔ وہ کچھ کہنے کے لیے لفظوں کا چناؤ کر رہی تھی۔ اور جب وہ بولی تو فقط اتنا کہا۔
“ثمینہ! مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں کیا کہوں۔” اسے احساس ہوا کہ وہ رو رہی ہے۔ اُس نے آنکھوں کو رگڑا۔
“تمہیں کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بھلا مجھ سے زیادہ تمہیں کون سمجھ سکتا ہے؟” ثمینہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ وہ عرش پریت کے تاثرات باریک بینی سے دیکھ رہی تھی۔ وہ اُس کی آنکھوں میں خوشی کی لہر دیکھ سکتی تھی۔ اُس کے چہرے پر واضح تشکّر تھا۔
“مجھے تو لگا تھا کہ شاید تم نے کسی وقتی جذبے کے تحت یہ بات کہی ہوگی۔” عرش پریت نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
“مجھے تمہاری دوستی پر فخر ہے کہ مجھے تم جیسی پُرخلوص دوست ملی۔ تم اپنے جگر کا ٹکڑا مجھے سونپ رہی ہو۔ ایسا کون کرتا ہے؟ میرا وعدہ ہے کہ میں اس بچے کی پرورش دل و جان سے کروں گی۔” عرش پریت خود کو سنبھال چکی تھی۔
“میری ایک شرط ہے۔” فرید علی بولا تو عرش پریت اور ثمینہ نے بیک وقت اسے دیکھا۔ دونوں سہیلیوں کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔
“میں چاہتا ہوں کہ اس بچے کی پرورش آپ ہمارے طریقہ پر کریں۔ آپ سمجھ رہی ہیں نا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں؟” فرید علی نے شرط پیش کی۔ عرش پریت نے سکھ کا سانس لیا۔
“بھائی صاحب! اگر آپ نہ کہتے تو بھی میں اس بچے کو اسلام پر قائم رکھتی۔” عرش پریت کی بات سن کر فرید علی مطمئین ہو گیا۔ وہیں ثمینہ کے چہرے پر بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
___________
عرش پریت کی زندگی، کسی تالاب میں ٹھہرے پانی جیسی ہو چکی تھی۔ یہ بچہ ایک پتھر کی طرح اس تالاب میں گرا اور اس کی زندگی میں ہلچل پیدا ہو گئی۔ وہ پھر سے جی اُٹھی تھی۔ اب اس کا چہرہ کِھلا کِھلا رہنے لگا۔ اس کے پاس پیسے کی فراوانی تھی۔ اس نے بچے کو کسی سلطنت کے شہزادے کی طرح رکھا۔ وہ ہر طرح سے اس بچے کے ناز نخرے اٹھا رہی تھی۔
بچے کا نام احتشام رکھا گیا۔ ثمینہ اکثر احتشام اور پریت سے ملنے آتی تھی۔ وہ یہ دیکھ کر خوش تھی کہ اس کی قربانی، اس کی دوست کو زندگی کی طرف واپس لے آئی ہے۔
پھر ایک عجیب واقعہ ہوا۔ جب احتشام دو سال کا تھا تو ایک دن ثمینہ کچھ بھی بتائے بغیر اپنی فیملی سمیت کہیں غائب ہو گئی۔ عرش پریت نے فرید علی کے محکمے سے پتہ کروایا تو یہ بات سامنے آئی کہ اس نے دلّی ٹرانسفر کروا لیا ہے۔ عرش پریت نے دلّی تک اپنے ملازم کو بھیجا۔ لیکن وہاں جا کر بھی فرید علی اور اس کی فیملی کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ وہ لوگ اپنی زمینیں بھی بیچ گئے تھے۔ عرش پریت اس معمے کو کبھی حل نہ کر سکی کہ اُس کی دوست اچانک کہاں چلی گئی۔
کچھ ماہ تک وہ اپنی دوست کو ڈھونڈتی رہی، پھر اس نے اپنی توجہ احتشام کی طرف مبذول کر لی۔ اس نے گھر کا ماحول ایسا بنایا کہ وہ احتشام کی، اسلامی طرز پر تربیت کے لیے سازگار تھا۔ وہ خود تو مسلمان نہ تھی؛ لیکن احتشام کو اس نے ایک اچھا مسلمان بنایا۔
جیسے جیسے احتشام کی عمر بڑھتی گئی، وہ سجن سنگھ کے خاندان والوں کے، اپنے بارے میں خیالات کو سمجھتا گیا۔ سجن سنگھ کے چچیرے بھائیوں کی اولاد احتشام سے خار کھاتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ سمجھتے تھے؛ احتشام ایک مسلمان ہو کر ان کی زمینوں پر قبضہ کیے بیٹھا ہے۔ لیکن وہ کچھ بھی نہ کر سکتے تھے۔ احتشام نے کم عمری میں ہی زمینوں کے معاملات میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ اور اس چیز نے اسے اپنی عمر سے بڑا کر دیا۔ وہ 23 سال کا ہو چکا تھا اور اس کا اعتماد کسی 35 سالہ شخص سے کم نہ تھا۔ چھ فٹ کے قریب قد، کسرتی جسم اور سرخ و سفید رنگت، احتشام کو ایک بھرپور مرد ظاہر کرتی تھی۔ چہرے پہ گھنی مونچھیں، اس کی شخصیت کو بارعب بناتی تھیں۔ احتشام بہت ذہین اور مدبّر نوجوان تھا۔ وہ گاؤں کے غربا کی مدد میں، ہمیشہ پیش پیش رہتا۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
“احتشام پتر! مجھے لگتا ہے کہ اب تیری شادی کر دینی چاہیے۔” ایک دن عرش پریت نے اس کی شادی کی بات چھیڑی۔
“کیوں بےبے! میں آزاد پھرتا تجھے اچھا نہیں لگتا؟” احتشام نے ہنستے ہوئے ماں سے پوچھا۔
“میرا بھی اب دل کرتا ہے کہ حویلی میں بچے اِدھر اُدھر دوڑتے نظر آئیں۔” عرش پریت اپنی لے میں بولتی رہی۔ احتشام کی بات کو اس نے بالکل نظر انداز کر دیا۔
“ہاں تو کرم دین سے کہیں کہ وہ اپنے پوتے پوتیوں کو لے آیا کرے۔ یا بسنت کور کو کہہ دیں۔” وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔
“اگر تجھے کوئی پسند ہے، تو مجھے بتا دے۔ ورنہ اگلے ہفتے تک نور الٰہی کو تیرا رشتہ ڈھونڈنے کے لیے کہتی ہوں۔” ایک بار پھر اس نے بیٹے کی بات کو صرف نظر کیا۔
اور پھر چار ماہ کے اندر احتشام کی شادی کبریٰ بی بی سے ہو گئی۔ وہ امرتسر کے قریبی گاؤں میں، ایک زمیندار کی بیٹی تھی۔ وہ ایک سگھڑ، سلیقہ شعار اور بااخلاق لڑکی تھی۔ وہ جلد ہی اس حویلی اور احتشام کے دل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ شادی کے ایک سال بعد ہی احتشام کے گھر میں اولاد نرینہ پیدا ہوئی۔ وہ بہت خوش تھا۔ پورے گاؤں میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ بیٹے کا نام گلفام رکھا۔ جو بھی اس بچے کو دیکھتا بلائیں لیتے نہ تھکتا۔ کئی دنوں تک حویلی میں جشن کا سماں رہا۔ حاسدین اپنے حسد کی آگ میں جلتے رہے۔ ان کا بس نہ چلتا تھا کہ اس حویلی کو آگ لگا دیں۔ ان کے دلوں میں بھڑکتی آگ کے شعلے کئی بار احتشام تک پہنچے تھے۔ لیکن وہ ان کا سد باب کر لیتا تھا۔ گلفام ڈیڑھ برس کا تھا، جب احتشام کے گھر دوسرا بیٹا پیدا ہوا۔ اس نے دوسرے بیٹے کا نام ضرغام رکھا۔ پھر یکے بعد دیگرے دو بیٹیوں کی پیدائش ہوئی۔ احتشام اب تک بہت سی زمینیں خرید چکا تھا۔ وہ اپنے بچوں کو دنیا کے ہر آسائش فراہم کر رہا تھا۔ گلفام نے سکول جانا شروع کر دیا تھا۔ گلفام گاؤں سے دور بڑے قصبے میں سکول جاتا تھا۔ گلفام کی سواری کے لیے احتشام نے ایک شاہانہ بگھی تیار کروائی تھی۔ ایک ملازم روز اسے لے کر جاتا اور واپس لے کر آتا تھا۔ ان کی زندگی بہت سکون سے گزر رہی تھی۔
_________
29 مارچ، 1940ء
اس شام احتشام کو اطلاع ملی کہ گاؤں کے کچھ لوگ اس سے ملنے آئے ہیں۔ وہ تیار ہو کر دیوان خانے میں پہنچا۔ وہ ان سب کے یوں اچانک آنے پر تھوڑا حیران تھا۔ اُنہیں دیکھ کر اسے مزید حیرانی ہوئی۔ گاؤں میں اکثر لوگ اس کے دیوان خانے میں، چھوٹے موٹے مسئلے لے کر آتے رہتے تھے۔ وہ ہر کسی کی بات خندہ پیشانی سے سنتا اور ہر ممکنہ کوشش سے اس مسئلے کو حل کرتا۔ لیکن ابھی اس دیوان خانے میں موجود ہر شخص مسلمان تھا۔ یہ بات اسے تھوڑی حیران کُن لگی۔ وہ اپنی نشست پر بیٹھا اور گمبھیر لہجے میں بولا۔
“آپ لوگوں کے چہرے کسی بڑے مسئلے کا پتا دے رہے ہیں۔“
“کچھ ایسی ہی بات ہے احتشام صاحب۔” بولنے والا ارسلان تھا۔ وہ ایک پڑھا لکھا شخص تھا۔ وہ بڑے قصبے کے سرکاری سکول میں معلّم تھا۔
“کرم داد کے لڑکے کو سُکھ ویر اور اس کے بھائیوں نے بڑی بے دردی سے پیٹا ہے۔ اس کا ایک بازو ٹوٹ گیا۔” ارسلان نے اسے مسئلہ بتایا۔
سُکھ ویر کا نام سن کر احتشام کے ماتھے پہ بل پڑ گئے۔
سُکھ ویر سجن سنگھ کے چچیرے بھائی کا لڑکا تھا۔ وہ احتشام کا ہم عمر ہی تھا۔ اور وہ ہمیشہ سے اس کے خلاف رہا تھا۔ شرپسندی تو اس کی فطرت میں شامل تھی۔
احتشام کے متعلق سارا گاؤں جانتا تھا کہ وہ عرش پریت کا سگا بیٹا نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی سُکھ ویر اور اس کے بھائیوں کی شکایات لے کر وہ احتشام کے پاس ہی آتے تھے۔
“ان کی شر پسندی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا کچھ سدباب کرنا ہوگا۔” احتشام کا لہجہ غصیلہ تھا۔
“ہوا کیا تھا؟ مجھے پوری بات بتاؤ۔” احتشام نے پوچھا۔ لڑکے کے باپ، کرم داد نے بولنا شروع کیا۔
“میرا بیٹا اپنے کھیتوں کی طرف جا رہا تھا۔ وہاں سُکھ ویر اور اس کے دونوں بھائی اپنے کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ میرے بیٹے کو دیکھ کر، اچانک وہ جارہانہ انداز میں اُس کی طرف بھاگنے لگے۔ اُن کے ارادوں کو بھانپ کر میرا بیٹا بھی بھاگنے لگا۔ لیکن اُنہوں نے اسے آ لیا اور مارنا شروع کر دیا۔ وہ ساتھ مغلظات بھی بکنے لگے۔ میرے بیٹے نے اپنے بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں مارے تو سُکھ ویر نے اس کا بازو ہی توڑ دیا۔” کرم داد کچھ دیر کیلئے خاموش ہوا۔
“چوہدری صاحب! وہ آپ کا نام بھی لے رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے ایک مُسلا ہماری زمینوں پہ قابض ہوا بیٹھا ہے اور دوسری طرف تمہاری ذات کے لوگ ہمارے دیش کو ٹکڑوں میں بانٹنا چاہتے ہیں۔” کرم داد خاموش ہوا تو وہ استفہمایہ نظروں سے ارسلان کو دیکھنے لگا۔
“دیش کو بانٹنے سے کیا مراد ہے؟” احتشام نے پوچھا۔
“ہم نے یہ مسئلہ پنچایت میں تو لے کر جانا ہی ہے۔ لیکن پہلے آپ کے پاس اسی لیے آئے ہیں کہ یہ معاملہ مذہبی لڑائی کا تھا۔” ارسلان نے تفصیل بتانا شروع کی۔
“ایک ہفتہ پہلے پورے ہندوستان سے مسلم لیگی رہنما اور کارکنان کا ایک بڑا ہُجوم لاہور میں، مسلم لیگ کے سالانہ اِجلاس میں شرکت کے لیے اکٹھا ہوا۔ تین دن چلنے والے اس اجلاس میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا گیا۔ اسے قرار دادِ لاہور کے نام سے پکارا گیا ہے۔ مُسلم لِیگ کے کثیر رہنماؤں نے اس قرارداد کو پاس کیا ہے۔ یہ بات پورے ہندوستان میں پھیل چکی ہے۔ اس بات کو لے کر کئی جگہوں پر دَنگے بھی ہوئے ہیں۔ حالات بہت خراب ہوتے جا رہے ہیں۔“
“اوہ! تو مسلم لیگ نے آخر کار وہ بات کر ہی دی، جس کے بارے میں بڑے عرصے سے سنتے آ رہے ہیں۔” احتشام نے تبصرہ کیا۔
“فرنگی تو جلد یا بدیر یہ ملک چھوڑ ہی جائیں گے۔ لیکن اگر ہمیں علیحدہ ریاست نہ دی گئی تو یہ ہندو ہم پر مسلط ہو جائیں گے۔ 1935ء والے ایکٹ میں مسلمانوں کو کچھ اختیارات ملے بھی تھے تو کانگرس رُول آنے کے بعد یہ سمجھ آ چکا ہے کہ ہندوؤں کا رویہ ہمارے ساتھ کیسا ہے۔ اور آگے کیسا ہوگا۔ آپ دیکھیے گا چوہدری صاحب! یہ جو نئی ریاست کا مطالبہ کیا گیا ہے، یہ بےجا نہیں ہے۔ اگر ہم ہندوؤں کے زیر تسلط آگئے تو یہ ہم سے ہماری مذہبی آزادی چھین لیں گے۔ ہمیں اچھوت سمجھنے والے یہ تعصب زدہ لوگ، ہم سے جینے کا حق بھی چھین لیں گے۔ مسلم مخالف تحریکوں نے سب کچھ واضح کر دیا ہے۔” ارسلان نے آنے والے دنوں کا نقشہ کھینچا۔
“اللہ اُمت مُسلمہ پر رحم فرمائے۔” احتشام کے منہ سے دعائیہ الفاظ نکلے۔
محفل برخاست ہو گئی۔ اگلے دن پنچائیت میں سُکھ ویر اور اس کے دونوں بھائیوں کو طلب کیا گیا۔ لیکن اُنہوں نے اپنا جرم قبول نہ کیا۔ واقعے کا کوئی چشم دید گواہ بھی نہ تھا۔ یہ بات کسی کنارے نہ لگ سکی۔ احتشام نے اس لڑکے کے باپ کو علاج و معالجے کے لیے ایک تگڑی رقم تھما دی۔ احتشام جانتا تھا کہ سُکھ ویر اور اس کے درمیان یہ کھینچا تانی کبھی ختم نہ ہوگی۔
____________
19 اگست، 1947ء
یہ صبح کاذب کا وقت تھا۔ حویلی جاگ اُٹھی تھی۔ ملگجے اندھیرے میں حویلی کے دروازے پہ دستک ہوئی۔ دربان نے باہر جھانکا۔ آنے والے کی بات سنی اور اندر کی جانب چل دیا۔ باہر کھڑے شخص کا پیغام شاہِ حویلی تک پہنچایا۔ اندر سے حکم ہوا کہ وارد کو دیوان خانے میں بٹھایا جائے۔ دربان کے کہنے پر آنے والا، حویلی کے چار دیواری میں داخل ہوا۔ اس نے چہرے پہ بندہ ڈھاٹا اُتارا تو اس شخص کا چہرہ واضح ہوا۔ وہ ارسلان تھا۔ اس کے پیچھے ایک اور شخص اندر داخل ہوا۔ وہ بلونت سنگھ تھا۔ وہ دونوں دیوان خانے میں پہنچے اور بے صبری سے احتشام کا انتظار کرنے لگے۔ کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ احتشام دیوان خانے میں داخل ہوا۔ وہ صُبح صُبح ان دو نفوس کے یہاں آنے پر بےحد حیران تھا۔ اس کے بیٹھتے ہی بلونت سنگھ نے ارسلان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
“ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ آپ جلد اِنہیں تمام صورتحال سے آگاہ کر دیں۔” احتشام کے چہرے پر حیرانی ثبت تھی۔ اب وہ ارسلان کی طرف دیکھنے لگا۔ ارسلان نے کہنا شروع کیا۔
“آپ کو پتہ ہوگا کہ ہندوستان تقسیم ہو چکا ہے۔ مُسلم اکثریت والے علاقے پاکستان کے حصے میں آئے۔ یہ طے نہیں تھا کہ لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان میں یا پھر ہندو اور سِکھ وہاں سے ہندوستان آئیں گے۔ لیکن حالات بہت بگڑ گئے ہیں۔ ننگِ انسانیت کا کھیل شروع ہو چکا ہے۔ ہندو اور سِکھ قتل و غارت کا بازار گرم کر رہے ہیں۔ مُسلمانوں کے گھروں پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ ان کی عورتوں کو پامال کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کے قافلے اپنی جان بچا کر مغربی پنجاب کی طرف نکل رہے ہیں۔ سِکھوں کے جتھے، وحشی درندوں کی طرح دندناتے پھر رہے ہیں۔ قتل و غارت کی یہ لہر ہمارے گاؤں میں بھی داخل ہونے والی ہے۔” ارسلان رکا تو بلونت سنگھ نے بولنا شروع کیا۔
“کل رات سُکھ ویر اور بہت سے دوسرے لوگوں نے مسلمانوں کے گھروں پہ حملہ کرنے کی سازش رچی ہے۔ آج رات وہ حملہ کرنے کی تیاری میں ہیں۔ گاؤں کا ہر سِکھ اس سازش میں شامل نہیں ہے۔ لیکن جو ان کا ساتھ نہیں دے رہے، وہ لوگ مسلمانوں کے لیے بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ آج رات سِکھوں کے جتھے اس گاؤں میں داخل ہوں گے۔ آپ لوگ جتنا جلدی ہو یہاں سے نکل جائیں۔” بلونت سنگھ نے اِسے ساری سازش سے مطلع کیا۔
“لیکن اپنا سب کچھ چھوڑ کر میں کیسے چلا جاؤں؟ ہو سکتا ہے یہ صرف دھمکی ہو۔” احتشام کا لہجہ تشویش ناک تھا۔
“بادشاہو! دھمکیاں سرِ عام دی جاتی ہیں۔ چھپ چھپا کر رچی گئی سازشیں، کبھی دھمکیاں نہیں ہوا کرتیں۔ اور ویسے بھی میں یہ حال اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ ہمارا گاؤں شر سے شاید اسی لیے بچا ہوا تھا کہ یہاں سِکھ مُسلم آبادی برابر ہے۔ اور ویسے بھی زندگی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ آپ کو اور آپ کے پورے خاندان کو جان سے مارنے والے ہیں۔” بلونت سنگھ نے اسے تلخ حقیقت سے آگاہ کیا۔
“احتشام بھائی! خواب، ہمیشہ قربانی مانگتے ہیں۔ اگر ہمارا الگ ریاست کا خواب حقیقت بن چکا ہے تو ہمیں اپنی نسلوں کی مکمل آزادی کے لیے اپنا گھر بار چھوڑنا ہوگا۔ ہماری قربانی ہماری نسلوں کے کام آئے گی۔ وہ اپنے مذہبی فرائض کو بنا کسی ڈر کے پورا کریں گے۔ جہاں ہمارے حکمران، ہم خود ہوں گے۔ ایک اسلامی ریاست کا خواب بالآخر پورا ہو چکا ہے۔” کچھ بحث و تمحیص کے بعد وہ ارسلان کی بات سے متفق ہو گیا۔
“آج شام تک، پرانے پل کے اس پار لوگوں کو اکٹھا کریں گے۔ پھر وہاں سے کسی انجان منزل کے لیے آغازِ سفر ہوگا۔ جتنا راشن بھی ساتھ لے سکیں، لے لیجئے گا۔” ارسلان نے اسے اگلے مرحلے کے بارے میں بتایا۔ احتشام ستے ہوئے چہرے کے ساتھ صرف سر ہلا سکا۔ وہ دونوں اُٹھ کر جانے لگے، تو احتشام نے بلونت سنگھ کو پکارا۔
“بلونت! تم ہماری مدد کیوں کر رہے ہو؟” بلونت نے چہرہ اس کی اور موڑا اور کہنے لگا۔
“اس لیے تاکہ آپ ہر سِکھ کو غلط مت سمجھیں۔ مجھے واہے گروجی کو منہ دکھانا ہے۔ رب آپ کے ساتھ بھلی کرے۔” بلونت سنگھ نے اپنے ہاتھ جوڑ کر اسے دعا دی اور واپس مڑ گیا۔ وہ دونوں جا چکے تھے۔ احتشام وہیں کھڑے ہو کر ممکنہ حالات کے بارے میں سوچنے لگا۔
دن چڑھتے ہی ایک ہنگامہ تھا، جو حویلی میں شروع ہوا۔ عرش پریت نے جب احتشام کی بات سنی تو ہتھے سے اکھڑ گئیں۔
“تیرا دماغ تو نہیں چل گیا کہیں؟ تو مجھے چھوڑ کر جانے کی بات کر رہا ہے۔“
“بےبے! آج رات کو ہم پر حملہ کیا جائے گا۔ تو سمجھ اس بات کو۔ مجھے ویسے بھی ان کے تیور ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔ بلونت نے تو میرے اندیشوں کی تصدیق کی ہے۔” احتشام نے اپنی ماں کو سمجھانے کی کوشش کی۔
“اور ویسے بھی جب حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو میں لوٹ آؤں گا۔” احتشام نے اسے اُمید تھمائی۔
“جھوٹے دلاسے مت دے مجھے۔ میں نے اپنوں کو جاتے دیکھا ہے۔ کوئی بھی لوٹ کر نہیں آتا۔” عرش پریت نے یاسیت سے کہا۔ اس کے پرانے زخم تازہ ہو چکے تھے۔
“بےبے! کیا تو دیکھ پائے گی جب وہ تیرے بیٹے اور پوتوں کو تیری آنکھوں کے سامنے قتل کر دیں گے؟” احتشام نے سوال کیا۔ عرش پریت دہل کر بولیں۔
“رب نہ کرے ایسا ہو!” وہ کچھ دیر خاموشی سے کچھ سوچتی رہیں۔
“تو پھر مجھے بھی ساتھ لے چل۔ میں یہاں اکیلی کیا کروں گی؟” احتشام جو دُکھی چہرے کے ساتھ ماں کو دیکھ رہا تھا، بولا۔
“بےبے! یہ سفر آسان نہیں ہونے والا۔ میں تمہیں اپنے ساتھ خوار نہیں کر سکتا۔” شام تک یہ سلسلہ چلتا رہا آخر کار عرش پریت کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔
سورج غروب ہوا اور اندھیرے کی چادر نے ہر چیز کو ڈھانپ لیا۔ احتشام کبریٰ بی بی اور اپنے چار بچوں کو لے کر، حویلی کے پچھلے گیٹ سے نکلا۔ عرش پریت نے اپنے بیٹے کو روتے ہوئے الوداع کیا۔ اس کا کلیجہ پھٹنے کو تھا۔ چار نفوس کا یہ قافلہ کسی کی نظروں میں آئے بغیر پرانے پُل تک پہنچا۔ وہاں ارسلان اور گاؤں کے بہت سے مسلمان گھرانے پہلے سے موجود تھے۔ وہ سب لوگ احتشام کا ہی انتظار کر رہے تھے۔ یہ قافلہ وہاں سے روانہ ہوا۔ ارسلان نے تمام راستوں کی معلومات حاصل کر لی تھی۔ غیر شعوری طور پر وہی امیر قافلہ تھا۔
لگ بھگ 2000 ایکڑ رقبے کا مالک اور اس کی زمینوں میں کام کرنے والے مزارعین، آج ایک برابر تھے۔ قائد کے خواب نے اس سے بہت بڑی قربانی وصولی تھی۔ لیکن سب لوگ پُر اُمید تھے۔ غم اور آس کی ملی جلی کیفیت میں، یہ قافلہ اپنے راستے پر آگے بڑھتا رہا۔
پھر اس قافلے نے سرِ راہ، عورتوں اور بچوں کے لاشے دیکھے؛ جو اس بات کا پتہ دیتے تھے کہ کچھ انسان اپنے مرتبے سے گر کر یہاں خون کی ہولی کھیل کر جا چکے تھے۔ کٹے ہوئے سر اور دھڑ دیکھ کر، وحشیوں کے انسان ہونے پر شک ہو رہا تھا۔ یہ سارے منظر اُن بچوں نے بھی دیکھے جن کی معصوم آنکھیں صرف خوبصورتی دیکھنے کے لیے بنی تھیں۔ اُن معصوم ذہنوں نے یہ سب کیسے ہضم کیا ہوگا؟ کئی دوسرے قافلوں کے لوگ بھی ان کے ساتھ ملتے گئے۔ اہل قافلہ کو ان کے منہ سے ایسے دل خراش واقعات سننے کو ملتے کہ سننے والے کی روح کانپ جاتی تھی۔ عورتوں کی عصمت دری کر کے، اُنہیں نے چیرا پھاڑا جا رہا تھا۔ احتشام کے قافلے کا ہر فرد اس سب کے بعد ذہنی پراگندگی کا شکار تھا۔ بہت سے لوگ تو جینے کی تمنا چھوڑ چکے تھے۔
قافلہ وہاں رکتا تھا، جہاں انہیں خطرہ کم محسوس ہوتا۔ پھر کھانے کا انتظام کیا جاتا۔ وہ صرف ضرورت کے تحت کھانا کھا رہے تھے۔ اور کبھی کبھار تو دو دو دن تک کھانا نہ کھایا جاتا۔ احتشام اور اس کا خاندان، جو ہر دسترخوان پر اپنی پسند کا کھانا کھاتے تھے۔ وہ ان حالات میں سب سے زیادہ پریشان تھے۔ اب تک قافلے کے چھ لوگ ہر تکلیف سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو چکے تھے۔
کھانا بناتے ہوئے کسی بھی طرح کے حفظانِ صحت کو مدنظر نہ رکھا جاتا تھا۔ اوپر سے بھادوں کا حبس قافلے کو بے چین کیے ہوئے تھا۔ ان ساری وجوہات کے سبب قافلے میں ہیضے کی وبا پھیل گئی۔ بہت سے لوگ مرنے لگے۔
احتشام بھی اس وبا کی لپیٹ میں آگیا۔ لیکن اس نے چلنا جاری رکھا۔ قافلہ چلتا ہوا بالآخر پاکستان کی حدود میں داخل ہوا۔ احتشام شاید انہی لمحات کے انتظار میں تھا کہ اپنے خاندان کو کسی محفوظ مقام تک پہنچا سکے۔ یہاں پہنچ کر اس کی بیماری بڑھنے لگی۔ صحت مسلسل گرنے لگی۔ وہ اس حالت میں صرف تین دن تک زندہ رہ سکا۔
35 سالہ احتشام، جس نے پیدا ہونے سے لے کر اب تک، مال و ثروت کی کثرت دیکھی تھی۔ جس کے لباس سے لے کر اس کے جوتے تک، ہر چیز اس کے دولت مند ہونے کا پتہ دیتی تھی۔ جس کے بچوں نے ہمیشہ آرام و سکون دیکھا تھا۔ جس کی بیوی نے ایک خوشحال زندگی گزاری تھی۔ وہ احتشام، بالآخر اس ویرانے میں، کسمپرسی کی حالت میں اپنے رب سے جا ملا تھا۔
پاکستان کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے، قافلے میں مرنے والے ہر شخص کی نعش وہیں چھوڑ دی جاتی تھی۔ لیکن احتشام کا باقاعدہ جنازہ پڑھایا گیا۔ اسے وہیں دفن کر دیا گیا۔ کبریٰ بی بی غم و الم کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ اس کے بیٹے ابھی چھوٹے ہی تھے لیکن وہ اپنی ماں کو حوصلہ دے رہے تھے۔
یہ قافلہ بکھرنے لگا۔ کچھ لوگ مہاجر کیمپوں کی تلاش میں نکل پڑے۔ کچھ لوگوں نے مقامی آبادیوں میں جائے پناہ ڈھونڈی۔ یہاں، لوگوں کے رویے یہ ظاہر کر رہے تھے کہ وہ مہاجرین کے آنے پر خوش نہیں۔ ہندوستان سے ہجرت کا یہ سلسلہ کافی دراز رہا۔ لوگ وقتاً فوقتاً ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے آتے رہے۔ اعداد و شمار کے مطابق یہ سلسلہ 1960ء تک چلا۔ حکومتِ پاکستان نے مہاجروں کے لیے کئی اقدامات اٹھائے۔ جن کی بدولت مہاجرین کی کثیر تعداد واپس زندگی کی طرف لوٹی۔
وقت گزرتا رہا۔ قائد نے جس ریاست کا خواب دیکھا تھا، وہ تو زمین کا ایک ٹکڑا بن کر رہ گئی۔ اس ٹکڑے پر، صاحب اختیارات لوگ اپنی من مانیاں کرتے رہے۔ اسلامی ریاست کا تصور آہستہ آہستہ دھندلا پڑتا گیا۔ مادی دنیا کے طلب گار مسلمان، اختیارات کا غلط استعمال کرنے لگے۔ قانون بکتا گیا۔ عدلیہ کا نظام تباہ ہونے لگا۔ ملکی امور چلانے والے حکمران، اپنا آرام و سکون دیکھنے لگے۔ رشوت اور بدعنوانی کی ایک لہر اٹھی، جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک طوفان میں بدل گئی۔ شریعت کے اصولوں کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ جو شخص کسی صاحب اختیار پر سوال اٹھاتا ہے، اسے غائب کر دیا جاتا ہے۔ آج کے اس پاکستان میں ہم سرکاری دفتروں میں بیٹھے فرعونوں کے زیر تسلط ہیں۔ ان کی بستی میں اگر کوئی ایماندار شخص داخل ہوتا ہے، تو سیاسی دباؤ یا پھر کسی افسر کے ذریعے، اس شخص کے اختیارات کو محدود کر دیا جاتا ہے۔ اور اگر ایمانداری کا بھوت پھر بھی نہ اترے تو اس کی قیمت اسے اپنی جان دے کر چکانی پڑتی ہے۔ آج کے اس پاکستان میں بدعنوانی، ہر چھوٹے طبقے سے لے کر بڑے طبقے تک، فنگس کی طرح پھیل چکی ہے۔ ہر دوسرا شخص خود غرض ہو چکا ہے۔ اپنے فائدے کے لیے وہ کسی کے ساتھ بھی زیادتی کرنے سے نہیں چُوکتا۔ ہم نے انگریزوں کی غلامی سے نجات تو پا لی: لیکن آج کا پاکستانی، صاحبِ اختیارات لوگوں کا غلام ہے۔ اور وہ لوگ تو کبھی ذہنی غلامی سے نجات پا ہی نہ سکے۔ جو ان اختیارات تک رسائی حاصل ہی، طاقت کا غلط استعمال کرنے کے لیے کرتے ہیں۔
قائدا اعظم نے کہا تھا کہ میں یہ سب مسلمانوں کے لیے اس لیے کر رہا ہوں، تاکہ جب میں اللہ کے حضور پیش ہوں، تو اللہ مجھے کہیں:
“Well done, Mr. Jinnah”
کیا آج کا پاکستانی ایسی امید رکھ سکتا ہے؟ مجھے تو خود پرست اور بے خوف پاکستانیوں کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ شاید وہ آخرت کو ہی بھولتے جا رہے ہیں۔ اچھے لوگ بھی موجود ہیں۔ لیکن اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو ہمیں ان کا تناسب خود نظر آ جائے گا۔ اور ہاں! اس تناسب کو دیکھتے ہوئے، اپنے گریبان میں جھانکنا مت بھولیے گا۔
Welcome to Urdu Novels Universe, the ultimate destination for avid readers and talented authors. Immerse yourself in a captivating world of Urdu literature as you explore an extensive collection of novels crafted by creative minds. Whether you’re seeking romance, mystery, or adventure, our platform offers a wide range of genres to satisfy your literary cravings.
Authors, share your literary masterpieces with our passionate community by submitting your novels. We warmly invite you to submit your work to us via email at urdunovelsuniverse@gmail.com. Our dedicated team of literary enthusiasts will review your submissions and showcase selected novels on our platform, providing you with a platform to reach a wider audience.
For any inquiries or feedback, please visit our Contact Us page here. Embark on a literary adventure with Urdu Novels Universe and discover the beauty of Urdu storytelling
Writer's other novels:
- phool zulfon mn by Falak Tanveer
- meena qasai or bakra Eid by Sumbal Tauseef
- chand raat by Samavia Khan
- naveed e eid by Aneeza Syed
- letter box by Asiya Raees khan
0 Comments