Urdu Novels Universe

A Universe of Endless Stories Awaits You

Read Online

ادب یا فحاشی از قلم اقراء ناصر

 

اس موضوع کو جاننے اور سمجھنے کے لیے سب سے پہلے
آپ کا “ادب” کے معنوں سے واقف ہونا ضروری ہے۔

“ادب” عربی زبان کا لفظ ہے۔ ظہور اسلام سے پہلے اس کے
معنی “مہمانی” اور “ضیافت” کے طور پہ لیے جاتے تھے۔

بعد میں اس کا ایک اور مفہوم لیا گیا جسے ہم
مجموعی طور پر “شائستگی” کہہ سکتے ہیں۔

 

ادب کے لغوی معنی ہیں “کسی چیز کو حد نگاہ
میں رکھنا”

یعنی ایک بامعنی اور سبق آموز بات کو موزوں الفاظ
میں اقدار اور تمیز و تہذیب کی حدود میں رہتے ہوئے قارئین کے سامنے اس طرح بیان
کرنا کہ پڑھنے والا اس کے مطالب اور اس کے لکھنے کی وجہ کو جان سکے اور ادیب اور
قاری کے درمیان شرم و حیا کا پردہ بھی باقی رہے۔

 

ادب کی اس تعریف کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچیں کہ
آج کل کے نام نہاد ادیب ادب کے نام پہ کیسا مواد لکھ رہے ہیں؟

ایسی ایسی نازیبا اور بےحیا کہانیاں جنہیں پڑھ کر
ادب کی پہچان رکھنے والوں کا سر شرم سے جھک جائے۔

انتہائی دکھ ہوتا ہے جب ہماری ادب سے لگاؤ رکھنے
والی ناولز کی دیوانی یہ عوام  دھڑلے سے اس بےحیائی کو پروموٹ کر رہی ہوتی
ہے۔ اس بات سے بالکل بے خبر کہ ان سب چیزوں کا معاشرے اور انفرادی زندگیوں پہ کیا
اثر پڑ سکتا ہے۔

افسوس ہے ایسا مواد لکھنے اور انہیں پڑھنے والوں
پر!

ایک ادیب اپنے قارئین کی وجہ سے ادیب بنتا ہے۔ میں
یہاں صرف کسی ادیب کو موضوع گفتگو نہیں بناؤں گی بلکہ میں ان سب قارئین کی بھی بات
کروں گی جو ایسے فحش اور بے حیا ناولز کو نہ صرف شوق سے پڑھتے ہیں بلکہ انہیں بڑے
دھڑلے سے پروموٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ 

لڑکیاں ایسے ناولز کے سینز کی ایڈٹ وغیرہ دیکھ کر
دیوانوں کی طرح ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہوتی ہیں کہ

“ناول کا نام کیا ہے؟”

“ایسے ہیروز کہاں ملتے ہیں؟”

“ہائے کتنی پیاری کہانی ہے!”

 

کیا کبھی ان لکھنے اور پڑھنے والوں نے سوچا ہے کہ
یہ “ادب” معاشرے پہ کس طرح اثرانداز ہو رہا ہے؟ کیسے یہ کچے نازک ذہنوں
کو خراب کر رہا ہے۔

ایسا مواد پڑھنے والے لوگ پھر انہی بے حیا چیزوں
کو دیکھنے اور پڑھنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔

آج کل کے ناولز میں لڑکا لڑکی کی دوستیاں عام ہیں
جن کی منظر نگاری اتنی کشادہ ذہنیت کے ساتھ کی جاتی ہے کہ کیا کہنے؟!

ہیرو کو بہت ظالم اور پتھر دل بنا کر دکھایا جاتا
ہے جہاں وہ ہیروئن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیتا ہے مگر وہ بےچاری اف تک نہیں
کرتی بلکہ اس سے مزید محبت میں مبتلا ہو کر ساری دنیا پہ یہ ثابت کردیتی ہے کہ
“محبت اندھی ہوتی ہے”

شادی شدہ افراد کی حیات اور معاملات پہ اس قدر
روشنی ڈالی جاتی ہے کہ سب کچھ واضح کر کے رکھ دیا جاتا ہے۔

میاں بیوی کے مقدس رشتے کو انتہائی حد تک مبالغہ
آرائی کے ساتھ شرم و حیا کی تمام حدود کو عبور کر کے بیان کیا جاتا ہے۔

آپ بتائیے کہ کیا یہ سب مواد ہمارے معاشرے پہ مثبت
اثر ڈالتا ہے؟

 کیا یہ گھر والوں سے چھپ کر کی جانے والی
دوستیاں ہماری نوعمر لڑکیوں کو اعتماد نواز رہی ہیں؟ 

کیا یہ اس قدر فحاشی ہماری عوام کی ادبی روح کی
تسکین کرتی ہے؟

 

جواب ہے “بالکل نہیں!”

 

جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب تو صرف وقت گزاری کے لیے
پڑھا جاتا ہے۔ ہم کونسا اس کو اپنی عملی زندگی میں لاگو کرتے ہیں تو میری پیاری
عوام میں آپ کو بتاتی چلوں کہ کوئی بھی کام وقت گزاری کے لیے ہی کیوں نہ کیا جائے
آپکی زندگی پہ کوئی نہ کوئی اثر ضرور رکھتا ہے۔ 

ہاں ہو سکتا ہے وہ اثرات اسی وقت ظاہر نہ ہوں مگر
وہ پڑھا ہوا مواد آپ کے لاشعور میں کہیں اٹک جاتا ہے اور زندگی کے کسی موڑ پر جب
وہ آپ پر آشکار ہو تو آپ اس کے تحت کوئی انتہائی غلط قدم اٹھا سکتے ہیں جو آپکی
ساری زندگی کو تہس نہس کر سکتا ہے!

میں یہاں خصوصاََ “فیس بک رائٹرز” کی
بات کرنا چاہوں گی جنہوں نے اس فحاشی کو فروغ دیا ہے۔

کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ اس سوشل میڈیا کے پردے کے
پیچھے چھپ کر اتنی بےحیائی لکھیں گے اور کوئی آپ کو دیکھ نہیں سکے گا ، جان نہیں
سکے گا؟

چلیں مان لیتے ہیں لوگ آپ کو نہیں جانتے مگر رب تو
جانتا ہے ناں! وہ سب دیکھ رہا ہے۔

آپ کی تحاریر آپ کے اعمال پر اثر انداز ہو سکتی
ہیں۔

اگر آپکی لکھی گئی تحریر کسی کی زندگی کو مثبت
طریقے سے بدلنے میں کامیاب ہو رہی ہے تو یہ آپ کے لیے “صدقہِ جاریہ” کے
طور پہ کام کرے گی۔ 

لیکن اگر آپ کی تحریر کسی کی زندگی میں بد سکونی
اور بےحیائی کا باعث بن رہی ہے تو یہ آپ کا “گناہ جاریہ” بنے گی۔ 

جو لوگ اس کو پڑھ کر غلط راہ روی کا شکار ہوں گے
ان سب کا الزام آپ کے سر آئے گا! آپ کا شمار ادب کے قاتلوں میں کیا جائے گا۔ 

 

اب بات کرتے ہیں کہ یہ سب انفرادی زندگیوں پہ کیسے
اثرانداز ہوتا ہے ؟

ایسا فحش مواد نوعمر اذہان کو آلودہ کرتا ہے۔

ایسی اخلاقیات سے گری ہوئی تحاریر انہیں بھٹکنے پر
مجبور کرتی ہیں۔

 

ادب انسان کو بہتر بناتا ہے۔ مطالعہ انسان کو نئے
علوم سے روشناس کرواتا ہے لیکن جب معاشرے میں ادب کے نام پہ مقدس رشتوں کی پامالی
کی جائے اور ہماری معاشرتی اور تہذیبی اقدار کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی جائیں تو
کوئی بھی غیرت مند مرد اپنی عورتوں ، ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کو ناولز پڑھنے کی
اجازت کیسے دے سکتا ہے؟

 

جب ناولز میں اس قدر واہیات باتیں لکھی جائیں جو
محض نفس کی تسکین کے سوا کچھ نہ ہوں تو وہاں سے بربادی شروع ہوتی ہے۔

 

آپ نہیں جانتے کہ جو بےحیائی آپ لکھ رہے ہیں اور
لکھنے کے بعد آپ سوچتے ہیں کہ اس میں کیا غلط ہے وہ کس طرح زندگیاں تباہ کر رہی
ہے؟

ایک شادی شدہ مرد اپنی بیوی بچے کی موجودگی میں
کسی دوسری عورت کو چاہتا اور اس کی تمنا کرتا ہے کیا یہ ہے ادب؟

رئیس ماں باپ کی بگڑی اولادیں جنہیں دین کی کوئی
خبر نہیں مگر چار چار گرلفرینڈز لیے گھومتے ہیں کیا یہ ہے ادب؟

گریجوایشن کے لیے یونیورسٹی جانے والے لڑکے اور
لڑکیاں یونی سے ڈگری لے کر نکلیں نا نکلیں ، ہمسفر ضرور ڈھونڈ چکے ہوتے ہیں۔ کیا
یہ ہے ادب؟

 

آپ کے لکھے اس نام نہاد ادب کی وجہ سے کئی آنکھوں
کے خواب چکنا چور ہوئے۔

محنتی اور اسکالرشپ ہولڈر طلباء کے والدین نے
انہیں یونیورسٹی جا کر پڑھنے کی اجازت صرف اس لیے نہیں دی کہ وہ اپنی عزت پہ کوئی
دھبہ لگوانے کے متحمل نہیں تھے۔ انہیں اپنی اولاد پہ تو یقین تھا مگر حالات
پرنہیں! 

حقیقی ادب سے لگاؤ رکھنے والی وہ غیر معمولی
خصوصیات کی حامل لڑکی صرف اس لیے ادیب نہ بن سکی کہ ان بولڈ ناولز کی وجہ سے ہی اس
کے گھر میں ادب کو فحاشی مواد کے مجموعے کا دوسرا نام سمجھا جاتا تھا۔ اس گھر کے
مرد انہی بے باکیوں کی وجہ سے ناولز پڑھنا معیوب سمجھتے تھے کجا کہ اسے لکھنے کی
اجازت دی جاتی۔۔

 

محض آپکی لکھی گئی تحاریر کئی دلوں کے چکنا چور
ہونے کا باعث بنیں۔

کئی چمکتی آنکھوں کے جگنو چھیننے کی وجہ بن گئیں۔

خدارا ہوش کریں!

 

ذرا اسلامی نقطہ نظر سے بھی دیکھتے چلیں !

جب بھی آپ کسی گناہ کا ارادہ کرتے ہیں تو اس میں
آپ کے جسم کا کوئی ایک مخصوص حصہ نہیں بلکہ پورا جسم ملوث ہوتا ہے۔

سب سے پہلے آپکا نفس (دل و دماغ) جس میں گناہ کرنے
کا خیال ابھرا۔

پھر آپکے ہاتھ ، پاؤں ، زبان، آنکھیں حتیٰ کہ جسم
کا ہر عضو!

 

تو آپکی ان فحش تحاریر کو پڑھنے والے بھی اپنے
پورے جسم کے ساتھ اس گناہ میں ملوث ہوتے ہیں جس کا سارا قصور آپکے سر ہو گا۔

 

“بےشک جو لوگ ایمان والوں میں بے حیائی کی
اشاعت چاہتے ہیں ، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہو گا اور اللہ
(سبحانہ وتعالیٰ) جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔”

                                      (النور:
19)

 

خدارا اس فحاشی اور عریاں نگاری کو چھوڑ کر کچھ
ایسا لکھیں جو رہتے وقت تک یاد رکھا جائے۔

کچھ ایسا لکھیں جو کسی کی زندگی حقیقی مثبت معنوں
میں بدل کر رکھ دے۔

کچھ ایسا جو کسی کے ڈگمگاتے ایمان کو مضبوط کرے۔

کچھ ایسا جو کسی کو زندگی جینا سکھائے۔

کچھ ایسا جو کسی کو خود سے محبت کرنا سکھائے۔

 

ایسے فحش ناولز کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ جب آپ ایسا
مواد پڑھنا چھوڑ دیں گے تو رائٹرز ایسا مواد لکھنا چھوڑ دیں گے۔

جب تک عوام ایسا مواد پڑھتی رہے گی ، پسند کرے گی
اور اسے پروموٹ کرے گی تب تک رائٹرز ایسا مواد لکھتے رہیں گے۔

اس سب کو ختم کرنے کے لیے اس سب سے آپکو خود بچنا
ہو گا۔

قلم اٹھانا تو بہت آسان ہے مگر قلم کو سنبھالنا
بہت مشکل! خدارا دھیان کیجیے۔

 

یاد رکھیے کہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانے والا بھی
ظالم کے برابر گنہگار ہوتا ہے۔

تو محض اپنے نفس کی تسکین کے لیے ایسے ناولز پڑھنا
چھوڑیں اور اس ادبی گستاخی کے خلاف آواز اٹھائیں۔

ادب کو بچائیں ____خود کو بچائیں !

 

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا



Welcome to Urdu Novels Universe, the ultimate destination for avid readers and talented authors. Immerse yourself in a captivating world of Urdu literature as you explore an extensive collection of novels crafted by creative minds. Whether you’re seeking romance, mystery, or adventure, our platform offers a wide range of genres to satisfy your literary cravings.

Authors, share your literary masterpieces with our passionate community by submitting your novels. We warmly invite you to submit your work to us via email at urdunovelsuniverse@gmail.com. Our dedicated team of literary enthusiasts will review your submissions and showcase selected novels on our platform, providing you with a platform to reach a wider audience.

For any inquiries or feedback, please visit our Contact Us page here. Embark on a literary adventure with Urdu Novels Universe and discover the beauty of Urdu storytelling

Writer's other novels:

Categories: article

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *