Urdu Novels Universe

A Universe of Endless Stories Awaits You

yeh kahani hai Quaid e Azam aur Allama Iqbal ki, Jo Pakistan Kay Haalaat o Waqayaat dekhne kay liye nikalty hain magar inhain kahan mayoosi hogi aur kahan nhi. Is Kay liye parhain yeh khubsurat si tahreer.

Read Online

 

یہ ایک تاریک کمرے کا منظر تھا۔ جس کے ایک طرف بنے روشن دان سے سورج کی شعاعیں اندر جھانک رہی تھیں۔ اسی روشن دان کے پاس ایک لکڑی کی پرانی طرز پر بنی کرسی پر کوئی وجود بیٹھا جھول رہا تھا۔ اس نے سفید شلوار کے ساتھ سیاہ شیروانی اور سر پر جناح کی ٹوپی زیب تن کر رکھی تھی۔ اس کے چہرے پر تفکر کے گہرے جال دکھائی دے رہے تھے۔ اسی اثناء میں ایک اور شخص جس نے خاکی شلوار قمیض کے ساتھ بھورے رنگ کی مردانہ شال اوڑھ رکھی تھی، نے کمرے میں داخل ہوکر کرسی پر بیٹھے وجود کو مخاطب کیا:

“کیا ہوا جناح؟ ایسے کیوں بیٹھے ہو؟” 

“کچھ نہیں اقبال۔ بس پاکستان کے بارے ميں سوچ رہا تھا۔” جناح نے سوچوں کے بھنور سے نکل کر جواب دیا۔

“ہاں۔ پھر کیسا ہے میرا پاکستان؟” اقبال نے پوچھا۔

“پتا نہیں۔ میں نے تو تمہارے خواب کو پورا کر دکھایا۔ اب تو چھہتر سال ہوگئے پاکستان بنے ہوئے۔” جناح نے کہا۔

“ہاں تو آؤ چل کر دیکھتے ہیں۔ کیسی ہے میرے خواب کی تعبیر؟” اقبال نے مشورہ دیا۔

“چلو۔ آؤ پھر۔” جناح بھی تائید کرتے ہوئے اپنی لاٹھی کے سہارے کھڑے ہوگئے۔ پھر دونوں ساتھ چلتے ہوئے باہر کی جانب ہولیے۔

_________________

“میرے نوجوانو! میں تمہاری طرف توقع سے دیکھتا ہوں کہ تم پاکستان کے حقیقی پاسبان اور معمار ہو۔ دوسروں کے آلہ کار مت بنو۔” (قائداعظم کا طلباء سے خطاب)

سب سے پہلے دونوں نے ایک سکول کا رخ کیا جہاں کوئی تقریب چل رہی تھی۔ وہ بھی ایک جانب بیٹھ کر تقریب دیکھنے لگے جس میں ایک کم عمر لڑکا اور لڑکی ایک بھارتی گانے پر رقص کررہے تھے جبکہ اساتذہ، والدین اور تمام طلباء تالیاں اور سیٹیاں بجاکر ان کو داد تحیسن پیش کررہے تھے۔ یہ منظر ان کیلئے کسی جھٹکے سے کم نہیں تھا۔ اس لیے وہ دونوں ہی ملول ہوکر وہاں سے چل دیے۔

__________________

ایک اور تعلیمی ادارے کا ایک منظر دیکھ کر وہ دونوں ہی تاسف کا شکار ہوئے۔ کیونکہ قومی ترانہ پڑھے جانے کے دوران طلباء تو ایک طرف بلکہ تمام اساتذہ بھی احتراماً کھڑے ہونے کی بجائے سکون سے اپنی اپنی نشستوں پر براجمان تھے۔ جب قوم کے اساتذہ کا یہ طرز عمل تھا تو وہ طلباء کی تعلیم و تربیت کیسے کرسکتے تھے۔

وہیں دوسری جانب ملک کے ایک مشہور و معروف گلوکار کے کانسرٹ میں نہ صرف یہی لوگ کھڑے تھے بلکہ ان کے جسم گانے کے بول پر ساتھ ساتھ تھرک بھی رہے تھے۔ اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اذان کی آواز پر گلوکار نے کچھ دیر گانا بند کیا تو آنے والے کئی روز تک لوگ اس کی تعریفوں کے پل باندھتے رہے تھے۔ جبکہ ان میں سے کسی کو بھی نماز پڑھنے کا خیال تک نہ آیا۔

“اسلام اور کفر میں فرق کرنے والی چیز نماز ہے۔” (حدیث نبویﷺ)

وہ دونوں وہاں سے بھاری دل کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔

____________________

“ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا، بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے، جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔” (قائداعظم)

پھر وہ دونوں ایک جامعہ میں داخل ہوئے جہاں ایک الگ ہی سما بنا ہوا تھا۔ تمام طلباء و طالبات مختلف رنگوں میں نہائے ہولی کا جشن بھرپور انداز میں منارہے تھے۔ کوئی ان کو روکنے والا نہیں تھا۔ پاکستان کی تو بنیاد ہی لا الہ الا الله پر رکھی گئی تھی۔ تو غیر مذہب کے رسم و رواج یہاں کیسے پروان چڑھ گئے تھے۔ یہاں سے بھی وہ مایوس ہوکر چل دیے۔

_________________

“میں آپ کو مصروف ِعمل ہونے کی تاکید کرتا ہوں، کام، کام اور بس کام، سکون کی خاطر، صبر و برداشت اور انکساری کے ساتھ اپنی قوم کی سچی خدمت کرتے جائیں۔” (قائداعظم کا نوجوانوں سے خطاب)

اس کے بعد انہوں نے  ایک ریستوران کا رخ کیا۔ جہاں طرح طرح کے لوگ مختلف قسم کے کھانوں سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ابھی وہ یہ سب دیکھ ہی رہے تھے کہ ان کی سماعتوں سے چند آوازیں ٹکرائیں:

“یار… میں نے تو سوچ لیا ہے کہ کسی بیرون ملک کا ویزا لگوالیا جائے۔ مجھے اب یہاں نہیں رہنا۔” ایک میز کے گرد بیٹھے تین نوجوانوں سے ایک نے کہا۔

“ہاں یار۔ تُو ٹھیک کہہ رہا ہے۔ پاکستان میں اب رکھا ہی کیا ہے۔ میری بھی یہی کوشش ہے۔” دوسرے نوجوان نے بھی اس کی تائید کی۔

“تو اور کیا۔ جہاں جاؤ کرپشن اور سفارشیں ہی ہیں بس۔ کوئی ڈھنگ کی نوکری ہی نہیں ملتی۔ اور جہاں ملنے لگتی ہے وہاں سفارشی آجاتے ہیں۔” پہلے نوجوان نے کہا۔

“بالکل۔ ہر جگہ بس پیسے کا ہی زور چلتا ہے۔ اور اپنی تو دال یہاں نہیں گلنے والی۔” دوسرے نے بھی تائید کی۔

“مگر جو بھی ہو یار۔ یہ ہے تو ہمارا ہی ملک نا۔ یہاں ہماری ایک پہچان ہے۔ بیرون ملک ہمیں کون جانتا ہوگا۔” اب کے تیسرے نوجوان نے لب کشائی کی۔

“جب خرچے ہی نہ پورے ہورہے ہوں تو خالی خولی پہچان کا کیا ہم اچار ڈالیں گے؟” پہلے والا اس کی بات سن کر جھنجلایا۔

“اور پہچان کی بھی خوب کہی تم نے۔ اس ملک نے آج تک ہمیں دیا ہی کیا ہے جو ہم یہاں رہنے کی سوچیں۔” اس نے مزید کہا۔

ان کی گفتگو جناح اور اقبال نے بھاری دل کے ساتھ سنی اور وہاں سے چل دیے۔

__________________

” اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔” (آل عمران : ١٠٣)

“مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اُس پر خود ظلم کرتا ہے اور نہ اُسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اُسے حقیر جانتا ہے۔” (حدیث نبویﷺ ، صحیح مسلم)

پھر وہ دونوں کسی دوسری جگہ چل رہے تھے کہ وہاں سڑک کے ایک طرف جمگھٹا لگا دیکھ کر رک گئے۔ دیکھنے پر معلوم ہوا کہ یہاں پر بلوچی، سندھی، اور پٹھان آپس ميں گتھم گتھا تھے۔ وہیں دوسری جانب شیعہ، سنی، وہابی اور دیوبندی ایک دوسرے کا گریبان تھامے ہوئے تھے۔

“ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم میں سےکوئی بھی سندھی ، بلوچی ، بنگالی ، پٹھان یا پنجابی نہیں۔ ہمیں صرف اور صرف اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہیے۔” 

جناح کے کانوں میں اپنی ہی آواز گونجی۔ پھر وہ دونوں آگے بڑھ گئے۔

______________

“اے نبی! اپنی بیبیوں اور صاحبزادیو ں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔” (سورۃ الاخزاب، ترجمہ کنز الایمان)

“اپنی روٹی خود پکاؤ۔”

“اپنا کھانا خود گرم کرو۔”

“میرا جسم، میری مرضی۔”

“اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو اپنی آنکھوں پر باندھو۔”

وہ دونوں ایک راستے سے گزر رہے تھے کہ کچھ  جملوں نے ان کی سماعتوں کو فیض بخشا۔ وہ دونوں رک کر دیکھنے لگے۔ تو معلوم ہوا کہ قوم کی بیٹیاں اپنے حقوق اور آزادی کے عَلم بلند کیے سراپا احتجاج ہیں۔

“دنیا کی کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی ،جب تک اس کی خواتین، مَردوں کے شانہ بشانہ معاشرے کی تعمیر و ترقّی میں حصّہ نہ لیں۔ عورتوں کو گھر کی چار دیواری میں بند کرنے والے انسانیت کے مجرم ہیں۔”

جناح نے سوچا کہ کیا وہ ایسی ترقی کے خواب دیکھتے تھے۔ اور جواب تھا “ہرگز نہیں۔” اقبال نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ دونوں قدم سے قدم ملا کر وہاں سے چل دیے۔

_________________

“رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنم کی آگ کا ایندھن ہیں۔” (حدیث نبویﷺ)

اب کی بار انہوں نے دفاتر کا رخ کیا۔ جہاں اے سی میں بیٹھے سول افسران اپنے سامنے انواع قسم کے لذیز کھانے رکھے کچھ یوں گفتگو کررہے تھے:

“ملک صاحبمہنگائی دن بدن کس قدر بڑھ گئی ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میں اپنی بیگم اور بچوں کے ہمراہ الفتح مال میں گھریلو اشیاء کی خریداری کے سلسلے میں گیا تو ہر شے کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی تھی۔ توبہ استغفراللہ۔” ان میں سے ایک نے باقاعدہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بتایا۔

“ہاں تو یہ مہنگائی فوج کی وجہ سے ہی تو ہورہی ہے۔ ہمارا اسی فیصد بجٹ تو یہی کھاتے ہیں۔ پھر ان کا حساب بھی ہمارے احاطے میں سے نکلتا ہے۔ ساری کرپشن تو ہماری فوج ہی تو کررہی ہے۔” ملک صاحب نے نخوت سے جواب دیا۔ تو باقی سب ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یہ بھی بھول گئے کہ جو ہم اس قدر آرام دہ کمرے میں بیٹھ کر ان لوازمات سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور اپنے گھروں میں بےفکری کی نیند کے مزے لوٹتے ہیں۔ تو صرف اور صرف اسی فوج کی بدولت ہی ممکن ہے مگر ایسوں کو کون سمجھائے۔

اسی اثناء میں ملک صاحب کو ایک کال موصول ہوئی جس کو اٹھاتے ہی وہ شیریں لب و لہجہ اپناتے ہوئے بولے“جی جی۔ مجھے لفافہ مل گیا تھا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ آپ کا کام ہوگیا۔”

ان کی گفتگو سن کر وہ دونوں ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ یکدم منظر پلٹا اور انہوں نے خود کو ایک گھر کے باہر کھڑا پایا۔ جہاں ضعیف ماں باپ فوجی افسران سے تہہ کیا ہوا سبز ہلالی پرچم وصول کرتے ہوئے چوم رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے تشکر کے اشک رواں تھے کہ اللّٰه نے ان کے سپوت کو جام شہادت نصیب کرکے ان کو سرخرو کردیا تھا۔ جبکہ دروازے کی اوٹ میں کھڑی شہید کی بیوہ خاموش آنسو بہارہی تھی اور اس کے پاس ہی دو ننھے پھول باہر جھانکتے ہوئے اپنے باپ کو تلاش رہے تھے۔ مگر نادان جانتے ہی نہ تھے کہ جس وجود کیلئے وہ بےچین ہیں اب وہ اس کو کبھی بھی دیکھ نہ پائیں گے۔ اور ان کی آنکھیں اس دید کیلئے ہمیشہ پیاسی رہ جائیں گی۔ اس کے بعد شہید کے جسد خاکی کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپردخاک کیا گیا۔

یہ منظر دیکھ کر دونوں ہی مغموم ہوئے کہ لوگ اتنے بےحس کیسے بن گئے۔

_______________

نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

“تم سے پہلی قومیں اس لیے برباد ہوئیں جب ان کا کوئی بڑا امیر و کبیر جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی سا آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی۔” (بخاری، رقم 4304)

اب کے انہوں نے ایوان صدر کا رخ کیا تاکہ عدلیہ کا نظام دیکھ سکیں۔ ممکن ہے کہ یہاں کچھ تسلی بخش ہو۔ مگر یہاں بھی ایک بہت بڑا دھچکا ان کا منتظر تھا۔

“اس کیس میں یہ معصوم ہیں۔ لہذا یہ عدالت ان کو باعزت بری کرتی ہے۔” جج صاحب نے ملزمان جن پر ملک کو ہاتھوں ہاتھ لوٹنے کے باقاعدہ ثبوت موجود تھے، اس کے باوجود ان کو باعزت بری کردیا گیا تھا۔ کیونکہ وہ لوگ صاحب اقتدار تھے۔ اور جج کے ساتھ وکلاء کے گھر کا چولہا بھی انہی لوگوں کی وجہ سے چلتا تھا۔ تو وہ کیونکر اپنے رزق کو لات مار کر ناشکری کرنے کے مرتکب ٹھہرتے۔

جبکہ دوسری جانب وہی جج صاحب ایک اور کیس کا فیصلہ کچھ یوں سنارہے تھے:

“یہ عدالت ملزم عبداللہ کو اس جرم کی پاداش میں تین ماہ قید بامشقت اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ عدالت کو جمع کروانے کی سزا سناتی ہے۔” اور نو سالہ ملزم عبداللہ کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا پیٹ پالنے کیلئے ایوان صدر کے باہر ریڑھی لگا بیٹھا تھا۔ فیصلہ سنانے کے بعد جج صاحب نے مزید کہا :

“تین ماہ کی سزا تو بہت کم ہے۔ ایسے لوگوں کو سخت سے سخت سزا ہونی چاہیئے۔” حیران کن بات یہ تھی کہ یہ فیصلہ محض سات دن کے اندر اندر سنایا گیا۔ جس سے ثابت ہوتا تھا کہ اس ملک میں عدلیہ کا نظام کتنا منظم ہے۔ جبکہ یہی عدلیہ ملک لوٹنے والے لوگوں کے فیصلے سنانے میں سالوں لگادیتی تھی۔ اور اس دوران عوام کیس کو بھول بھال جاتی تھی جبکہ مجرم عدالتوں سے معصوم کا لیبل لگواکر باعزت بری ہوکر بیرون ممالک فرار ہوجاتے تھے۔

یہ سب دیکھتے ہوئے جناح کو اپنا ایک اور فرمان یاد آیا:

“انصاف اور مساوات میرے رہنما اصول ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی حمایت اور تعاون سے ان اصولوں پر عمل پیرا ہوکر ہم پاکستان کو دنیا کی سب سے عظیم قوم بنا سکتے ہیں۔”

یہ قوم عظیم کیسے ہوسکتی تھی جہاں عدلیہ کا نظام اتنا ناقص تھا۔ 

_______________

؂نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویران سے 

      ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے ساقی

          (شاعرمشرق علامہ محمد اقبال)

اس کے بعد وہ دونوں ایک بستی میں داخل ہوئے جہاں چھوٹے چھوٹے بچے چودہ اگست کے سلسلے ميں اپنے گھروں کو رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجارہے تھے۔ اتنے میں ایک جھنڈی ہوا کے دوش پر اڑتے ہوئے زمین پر جاگری تو ایک بچے نے فوراً سے اسے اٹھا کر صاف کیا اور چوم کر اپنی قمیض کی اوپری جیب میں ڈال دیا۔ تمام گھر سجانے کے بعد وہ بچے اکٹھے ہوکر ملی نغمہ “اے قائداعظم تیرا احسان ہے احسان” گانے لگے۔

یہ دیکھ کر جناح اور اقبال نم آنکھوں سے مسکرا دیے کہ ابھی پاکستان کی ڈور ان ننھے فرشتوں کے ہاتھ میں آنی باقی ہے اور وہ دن دور نہیں جب یہی بچے ان کے خوابوں کی تعبیر کو سچ کر دکھائیں گے۔ پھر وہ دونوں واپسی کے راستے کی جانب ہولیے۔ اور پیچھے بچوں کی نغمہ گاتے آواز ہنوز گونج رہی تھی۔

یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران

اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

تیرا احسان ہے تیرا احسان

ہر سمت مسلمانوں پہ چھائی تھی تباہی

ملک اپنا تھا اور غیروں کے ہاتھوں میں تھی شاہی

ایسے میں اٹھا دین محمد کا سپاہی

اور نعرہ تکبیر سے دی تو نے گواہی

اسلام کا جھنڈا لیے آیا سر میدان

اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

تیرا احسان ہے تیرا احسان

دیکھا تھا جو اقبال نے اک خواب سہانا

اس خواب کو اک روز حقیقت ہے بنانا

یہ سوچا جو تو نے تو ہنسا تجھ پہ زمانہ

ہر چال سے چاہا تجھے دشمن نے ہرانا

مارا وہ تو نے داؤ کہ دشمن بھی گئے مان

اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

تیرا احسان ہے تیرا احسان

لڑنے کا دشمنوں سے عجب ڈھنگ نکالا

نہ توپ نہ بندوق نہ تلوار نہ پھالا

سچائی کے انمول اصولوں کو سنبھالا

پنہاں تیرے پیغام میں جادو تھا نرالا

ایمان والے چل پڑے سن کر تیرا فرمان

اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

تیرا احسان ہے تیرا احسان

پنجاب سے بنگال سے جوان چل پڑے

سندھی، بلوچی، سرحدی پٹھان چل پڑے

گھر بار چھوڑ بے سرو سامان چل پڑے

ساتھ اپنے مہاجر لیے قرآن چل پڑے

اور قائد ملت بھی چلے ہونے کو قربان

اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

تیرا احسان ہے تیرا احسان

نقشہ بدل کے رکھ دیا اس ملک کا تو نے

سایہ تھا محمد کا، علی کا تیرے سر پہ

دنیا سے کہا تو نے کوئی ہم سے نہ الجھے

لکھا ہے اس زمیں پہ شہیدوں نے لہو سے

آزاد ہیں آزاد رہیں گے یہ مسلمان

اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

تیرا احسان ہے تیرا احسان

ہے آج تک ہمیں وہ قیامت کی گھڑی یاد

میت پہ تیری چیخ کے ہم نے جو کی فریاد

بولی یہ تیری روح نہ سمجھو اسے بیداد

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

گر وقت پڑے ملک پہ ہو جائیے قربان

اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

تیرا احسان ہے تیرا احسان

Welcome to Urdu Novels Universe, the ultimate destination for avid readers and talented authors. Immerse yourself in a captivating world of Urdu literature as you explore an extensive collection of novels crafted by creative minds. Whether you’re seeking romance, mystery, or adventure, our platform offers a wide range of genres to satisfy your literary cravings.

Authors, share your literary masterpieces with our passionate community by submitting your novels. We warmly invite you to submit your work to us via email at urdunovelsuniverse@gmail.com. Our dedicated team of literary enthusiasts will review your submissions and showcase selected novels on our platform, providing you with a platform to reach a wider audience.

For any inquiries or feedback, please visit our Contact Us page here. Embark on a literary adventure with Urdu Novels Universe and discover the beauty of Urdu storytelling

Writer's other novels:


1 Comment

Binte Hawa · August 14, 2023 at 1:22 pm

Bohaaaaaaat Acha likha hai.
Hum sab ne azadi ka ghalat matlab nikal lia hai.
Hum azad ho kay bhi gulam hai kisi dusri qoam kay.
Allah writer ko mazeed kamyabi dey
Ameen

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *