Urdu Novels Universe

A Universe of Endless Stories Awaits You

Read Online

 

صوبہ سرحد ، ضلع ایبٹ آباد کے حسین گاؤں کاکول کے آسمان پر آج کالے بادل چھائے ہوئے تھے۔ ہر سو سکون ہی سکون چھایا ہوا تھا۔ پانی سے لدے بادل کسی بھی  پل برسنے کو تیار تھے۔ وقفے وقفے سے بجلی چمکتی اور کچھ ہی ساعتوں میں اس کی کڑک سماعتوں سے ٹکراتی۔ پل بھر میں  بادلوں کی گرج کسی کھڑکی کے پار تکتے نفس کو اچانک سے خوفزدہ کر دیتی تو کوئی خوشی سے اچھل پڑتا۔

کاکول ہاؤسنگ سوسائٹی میں موجود خوبصورت سنگل سٹوری گھروں اور ڈبل سٹوری بنگلوں میں کہیں کہیں سے چائے اور سموسوں پکوڑوں کے تلنے کی خوشبوئیں   آرہی تھیں۔

اور چند گھروں کے افراد لان میں شیڈ تلے کرسیاں لگائے  ٹیبل پر کافی  اور  پیٹیز رکھے  ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

  اگر تم اوپر سے دیکھو تو تمہیں چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے بلاکس بنے نظر آئیں گے جواپنے حسن سے تمہاری توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان بلاکس  کےدرمیان کالے تارکول کی صاف ستھری سڑکیں اس منظر کو مزید چار چاند لگاتی  دکھیں  گی۔ دور تم پاکستان ملٹری اکادمی (P M A)   کے وسیع و عریض رقبے کا نظارہ بھی کر سکتے ہوجہاں ہریالی ہی ہریالی ہے۔مگر اس وقت تم ان رنگین ڈبوں کو قریب سے دیکھو۔
یہ ایک چھوٹا سا ون یونٹ ڈبل سٹوری بنگلا ہے ۔ تم اس کے سرمئی روغن والے تراشیدہ نقش و نگار کے حامل داخلی دروازے سے قدم اندر رکھو تو تمہیں سیدھ میں ایک گاڑی کھڑی ہونے کے جتنا کھلا صحن  دکھائی دے گا۔ دائیں  جانب نگاہ دوڑاؤ  تو لان میں بیٹھے  تین افراد  کافی کے مگ اور  پیٹیز سے انصاف کرتے دکھائی دیں گے۔ جب کہ چوتھے کے ہاتھ میں تمہیں آلو کے چپس سے بھرا تھال اور لال شربت جس میں ڈھیر سارا لیموں کا رس ملا ہوا ہے وہ نظر آئے گا۔
”  اوئے  چھٹکو!  کیا سوچ رہے ہو ؟  “ زارا  نے اپنے چھوٹے بھائی سلمان کے بالوں کو بکھیرتے ہوئے اسے مخاطب کیا، جو ایک کے بعد ایک چپس دھیرے دھیرے منہ میں رکھتا اپنے ہاتھ میں موجود کتاب کے صفحات پلٹتے پلٹتے اچانک پڑھنے کے بجائے کافی دیر سے کچھ سوچتا دکھائی دے رہا تھا۔ سلمان ۱۰ سال کا تھا۔ اس کے پھولے پھولے سرخی مائل گال دیکھ کر چھوٹے سے بچے کا احساس ہوتا جنہیں دیکھ کر فوراً کھینچنے کا دل کرتا۔ اس کی گہری سیاہ آنکھوں سے ذہانت ٹپکتی تھی اور صبیح پیشانی سے روشنی۔

” آپی ! میں پاکستان کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ “ اس نے اپنے ازلی پر سوچ انداز میں جواب دیا۔

کافی کا گھونٹ بھرتے اس کے والد صاحب اور والدہ کے لبوں پر سمٹی سمٹی سی مسکراہٹ اور آنکھوں میں ستائش ابھری ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر ہمہ تن گوش ہوئے۔ وہ دونوں اپنی تینوں اولادوں پر فخر کرتے تھے اور یہ سب سے چھوٹا تو سب کا لاڈلا تھا جس کی معاملہ فہمی اور سمجھداری نے اسے گھروالوں ، رشتہ داروں سے لے کر  اساتذہ تک سب کی آنکھوں کا تارا بنایا ہوا تھا۔

” ہممم۔۔ تو پھر اپنی  سوچ سے ہمیں بھی کچھ فائدہ پہنچا دو۔ “ زارا نے بھی مسکراتے ہوئے ، ہوا سے اڑتے اپنے سیاہ بال کان کے پیچھے اڑستے ہوئے اس سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ زارا گریجویشن مکمل کر چکی تھی۔ وہ بھی ایک قابلِ فخر گھر کا فرد تھی۔ بچپن سے سگھڑ ، گھر کے تمام کاموں میں ہاتھ بٹانے والی۔ اس کا قد معمولی ہی تھا بلکہ چھوٹا تھا۔ ۵ فٹ کی یہ لڑکی گھر کے ہر کونے کھدرے میں گھس جاتی تھی۔ اپنی والدہ کے کام بانٹتی۔ اس کو بیکنگ کا بے حد شوق تھا اور ابھی بھی سب اسی کے ہاتھ کے بنے ہوئے گرما گرم پیٹیز ہڑپ کر چکے تھے۔ سلمان اس کی جان کا ٹکڑا تھا جس کی ہر فرمائش  وہ آنکھ بند کر کے پوری کرتی تھی۔
  ” وہ میں بعد میں بتاؤں گا۔ پہلے آپ یہ بتاؤ بھیا اس دفعہ آ رہے ہیں کیا ؟ “ اس نے سوال کے بدلے سوال کیا تھا۔

تمام افراد کے چہروں پر موجود سمٹی مسکراہٹیں معدوم ہونے کے بجائے مزید  گہری ہوگئی تھیں۔

” وہ زیادہ دور تو نہیں ہے ، یہیں  پی۔ایم۔اے میں تو موجود ہے  مان! اب وہ وطن کا بیٹا بن کے ہی واپس لوٹے گا۔ “ اس کے والد صاحب نے جواب دیا۔

” جی ابا ! اچھا سنو آپی میں سوچ رہا تھا ہمارے بزرگوں نے کتنی مشکلوں سے یہ آزاد ملک حاصل کیا تھا نا ؟ تو پھر آج ۷۶ سال بعد اس کا اتنا برا حال کیسے ہوا ؟ “ اس نے پہلے والد صاحب سے کہا پھر زارا کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے  سوال داغ ڈالا۔ 

” یہ سوال بہت اہم ہے۔ ہم اس پر ڈسکشن کر لیتے ہیں۔ کیوں ٹھیک ہے نا امی ؟“ زارا نے اپنے مشورے کی تائید چاہی۔ اس کے ساتھ ہی بادل زور سے گرجے اور چھما چھم برسات شروع ہوگئی۔

امی نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔ وہ لوگ چونکہ شیڈ تلے بیٹھے تھی لہٰذا اندر جانے کے بجائے وہیں بیٹھے رہے۔ اب تک سب کے مگز خالی ہو کر ٹیبل پر دھرے ہوئے تھے۔ پلیٹ میں پیٹیز کا آخری پیس پڑا تھا۔ البتہ شربت کے گلاس میں دو گھونٹ باقی تھے جو چسکیاں لے لے کر سلمان نے آدھے گھنٹے میں ختم کرنے تھے۔  چپس کی پلیٹ، نہیں بلکہ تھال میں بھی ابھی کافی چپس موجود تھے اگرچہ ان کے گرماہٹ درجہ بدرجہ گھٹتی جا رہی تھی۔  ابا اور امی دونوں فی الوقت چپ بیٹھے اپنے دو ہونہار سپوتوں کی گفتگو ملاحظہ فرما رہے تھے۔

” تم بتاؤ ، تمہیں کیا لگتا ہے مان ! پاکستان کی یہ حالت کیوں ہے؟ “ زارا نے پہلے اسے بولنے کا موقع فراہم کیا۔

 


” اسفندیار! “

” ہوں ؟ “

” بھائی موسم بڑا پیارا ہو رہا ہے۔ آؤ کیفے سے سموسے کھانے چلیں۔ اب تو ہم جا بھی سکتے ہیں۔ “

اسفندیار  اور اریز  دونوں روم میٹس تھے۔ اریز  نے سنگل بیڈ پر اپنے بوٹس اتارتے ہوئے اسفند سے، جو بوٹ اتارے بغیر پاؤں نیچے لٹکائے آدھا بستر پر ڈھیر تھا بلکہ آدھا لٹکا ہوا تھا،  یہ سوال کیا تھا۔

وہ دونوں ابھی  باکسنگ کر کے آئے تھے۔ دونوں نے آدھے بازوؤں والی آستین کی شرٹس پہن رکھیں تھیں۔ ماتھے سے پسینہ ٹپک رہا تھا جبکہ ہوا چل رہی تھی۔ 

باکسنگ سے پہلے آج ان کا ”ایسڈ ٹیسٹ “ (Acid Test) بھی تھا۔  اس  میں کیڈٹس اپنے کندھوں پر نوشتہ لادتے ہوئے پہاڑ کو عبور کرتے ہوئے  شروع کرتے ہیں۔ اس کے بعد کیڈٹ 14.5  کلومیٹر مکمل گیئر میں رکاوٹی راستے پر دوڑتا ہے۔ کورس مکمل کرنے والوں کو پانچ راؤنڈ دیئے جاتے ہیں جن کے ذریعے 22 میٹر کے فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

یہ سب کر کے وہ تھکے مارے واپس آئے تھے۔ جب اریز نے سوال اٹھایا۔

” چل بھائی چلیں۔“ اسفندیار جتنا مرضی تھکا ہوا ہو کھانے کے معاملے میں کبھی ” نہ” کر دے یہ ناممکن تھا۔ مزید برآں اگر موسم اتنا خوشگوار ہو تو اس کے نزدیک کوئی پاگل ہی ہوگا جو نہ جانے کے بہانے بنائے۔

اریز اس کی جواب پر بے ساختہ ہنسا تھا ۔

”  آجا اٹھ! “

چند لمحوں بعد کپڑے بدلے کیڈٹس  اپنے ازلی حلیے میں کیفے میں موجود تھے۔ دو کپ چائے اور سموسے لے کر وہ  کرسی کھینچ کے چھوٹی سی میز کے گرد آ دھمکے۔ کیفے میں داخل ہوتے ہی سامنے بڑا سا فریم لگا ہوا تھا جس پر ان کا موٹو کندہ  تھا۔

 ”Men At Their Best “

” اریز ! “ اسفند نے سموسے کا ایک ٹکڑا نگل کر گھونٹ بھرتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔

” ہاں ؟ “ اس نے استفہامیہ نظروں سے سموسے کا لقمہ چباتے ہوئے اسفند کو دیکھا۔

” ہم یہاں کب آئے پتا بھی نہیں چلا اور اب کچھ ہی عرصے میں اپنی اپنی بٹالینز میں چلے جائیں گے۔ اس اکیڈمی کا ہر وہ راستہ ہر وہ پھول پتہ مجھے یاد رکھے گا جس سے میرا گزر ہوا ؟ “

” بھائی پہلے مجھے یہ بتا تو جذباتی کیوں ہورہا ہے ؟ ابھی وقت پڑا ہے یہاں سے جانے میں۔ اور جہاں تک بات ہے تجھے یاد رکھنے کی تو وہ درخت بے چارہ تمہیں کیسے بھول سکتا ہے جس کے کان پھاڑے تھے تم نے۔ “ اریز جان بوجھ کر ماحول کو ہلکا کرنے کے لیے اس کی توجہ  یادگار واقعے کی طرف مبذول کروا چکا تھا۔

” کون سا درخت ؟ اور درخت کے کیسے کان؟ “ اسفند جان بوجھ کر انجان بنتے ہوئے تاثرات کو سپاٹ رکھتے ہوئے بول رہا تھا۔

” بس بس زیادہ مت بنو۔ وہی والا درخت جس پر پہلے دن ہی سینئیرز نے تمہیں چڑھوا دیا تھا اور الله توبہ کیسے حلق پھاڑ پھاڑ کر لاچار ، مظلوم ، معصوم درخت کے کان پھاڑے تھے تم نے۔ کیا کہلوا رہے تھے وہ تم سے؟ “ اریز نے شرارتی نظروں سے ابرو اچکاتے ہوئے اسفند سے سوال کیا اور پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے بات کا تسلسل برقرار رکھا۔

” آگیا ہے کیوں کاکول

میرے جیسا بلڈی فول “

اس کا قہقہہ گونجا تھا مگر وہ اتنا پست ضرور تھا کہ صرف اسفند کو سنائی دیتا۔ پی ۔ ایم۔اے کے رولز کی خلاف ورزی اتنے پرانے کیڈٹ کو قطعاً زیب نہیں دیتی تھی، اسی لیے۔

” ہاں اور جناب آپ بھی اپنی پہلی ذلالت میرے ہاتھوں یاد رکھیں۔ “

” ہاں ہاں یاد ہے جب تم نے یہاں ’ میرے جیسا ‘ کی جگہ ’ تیرے جیسا ‘ لگایا تھا جب میں گزر رہا تھا۔ مگر تمہاری والی تو بھائی ہیوی۔اس نے اسفند کا جملہ کاٹ کر ایک بار پھر اس کا ریکارڈ لگایا تھا۔

” اچھا اچھا خیر اچھی بات ہے وہ درخت تو کم از کم مجھے یاد رکھے گا۔ “

” تم فکر نہ کرو تمہیں صرف پی۔ایم۔اے نہیں وطن کا ذرہ ذرہ ، بچہ بچہ یاد رکھے گا۔ “ اریز نے اس کو دو انگلیاں دکھاتے ہوئے تسلی بخشی تھی۔

 


ہے جرم اگر وطن کی مٹی سے محبت ۔۔

یہ جرم سدا میرے حسابوں میں رہے گا !

 

” میرے نزدیک ؟ “ سلمان نے سوچنے کے انداز میں تھوڑی کو انگلی اور انگوٹھے سے پکڑا پھر گویا ہوا

” شاید اس لیے کہ ہم نے اس ملک کو کچھ نہیں دیا۔ “ یہ اس کا جواب تھا۔

” بالکل ٹھیک بات کہی تم نے مان ! ہم نے اس ملک کو واقعی کچھ نہیں دیا۔ نہ ا چھے حکمران نہ ہی اچھے عوام۔ “

” لیکن آپی لوگ یہ کیوں کہتے ہیں کہ اس ملک نے کیا دیا ہم کو ؟ جو لوگ قربانیاں دے کر کچھ حاصل کرتے ہیں وہ اپنی حاصل کردہ چیز کو یوں بے مول تو نہیں کر سکتے۔ “ اس چھوٹے بچے کی آواز میں درد گھل آیا تھا۔

” سلمان تم نے بالکل درست کہا۔ ملک صرف ایک خطہ زمین ہے۔ اس کا کام ہمیں اچھی زرخیز ، وسعت والی جگہ ، خوبصورت موسم ، معدنیات ، ہر طرح کا اناج ، تحفظ فراہم کرنا تھا۔ اور یہ کام تو اس بے جان خطہ زمین نے بخوبی ادا کیا ہے۔ اس شہیدوں کے لہو سے سینچے ہوئے خطے کو امن اور خوشحالی کا گہوارہ بنانا ہمارا کام تھا۔ لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں اس لیے ایسا کہتے ہیں۔ جو وہ ملک سے مانگنا چاہ رہے ہیں وہ دراصل خود انہوں نے ملک کو دینا تھا۔ “ زارا نے بولتے بولتے ایک نظر امی ابا کو دیکھا پھر چپس کا ایک ٹکڑا اٹھاتے ہوئے سوچ میں گم مان کے منہ میں ڈالا جس کے لیے اس نے معصومیت سے لب وا کر دیے۔

” آپی یہی تو میں بھی اپنے دوستوں سے کہتا ہوں۔ ہم صرف حکمرانوں کو کرپٹ مجرم اور نجانے کیا کیا کہہ کر سارا ملبہ ان پر گرا کر اپنا دامن صاف کر لیتے ہیں جب کہ ایک اچھا انسان اور ایک مومن سب سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکتا ہے۔ “ وہ سانس لینے کو رکا تو اسے بولتا دیکھنے والوں کی آنکھیں اسے جانتے ہوئے بھی حیرت سے پھیلیں اور لبوں پر مسکان مزید گہری ہوئی۔ یہ کتابوں کی لت اسے اتنا معاملہ فہم اور ایسے مدبرانہ الفاظ بھی سکھا گئی تھی۔ وہ سب کتنے خوش تھے۔ وہ شربت کے گلاس سے ایک چسکی لے کر دوبارہ بولنا شروع ہوا۔  بارش کی رفتار تھوڑی مدھم پڑی تھی اورہوا کا ایک تیز جھونکا ان کی طرف سے گزرا۔

 

” آپی کوئی بھی چیز ہو پڑھائی لکھائی سے متعلق ہو یاکوئی بھی نیا کام شروع کرنے کا پراسس  ہو سب سے پہلے کس چیز پر توجہ دی جاتی ہے؟ “

بنیاد ۔۔( basics)،  اور اگر بنیاد پے ہی قائم نہ رہا جائے تو فنا ہی مقدر ہوتی ہے مان! “ زارا  نے جواب کے ساتھ کچھ مزید الفاظ کا اضافہ کیا۔

” تو آپی یہی غلطی ہوئی نا؟ ہم عوام ملک کی بنیاد ہیں ؛ عوام کا ایک ایک فرد معاشرے کی بنیاد ہے۔ تو جب ہم نہیں سدھرنا چاہیں گے تو ہمیں کسی دوسرے سے اچھائی کی توقع رکھتے ہوئے بھی سوچنا چاہیے نا۔یہ تو اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں کہا ہے نا کہ

 إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ

بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔

 دوسروں پر الزام لگا دینا بیشک وہ سچ ہی ہو کون ساکوئی ڈئیرنگ (daring)  کام ہے۔ یہ تو بزدل کرتے ہیں۔ دنیا کا سب سے مشکل کام اپنے گریبان میں جھانکنا ہے کیوں کہ جب انسان اپنے ہی آئینے میں اپنا مسخ شدہ چہرہ دیکھتا ہے تو خود سے بھی نظریں نہیں ملا پاتا۔ “ وہ سب واقعی  اُس کی باتوں پر ششدر تھے۔

 

” یہ تو سو فیصد درست بات کہی تم نے مان! میں اس میں اضافہ کرنا چاہوں گی۔  انسان کو جب دوسروں میں غلطی نظر آتی ہے نا تو تب بھی اُسے خود کو جانچنا چاہیے کیوں کہ رسول  ﷺکے فرمان کے مطابق ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے۔ اسی لیے انسان کو جو غلطی سامنے والے میں نظر آرہی ہے وہ اس کا اپنا عکس ہے۔ اب وہ بھیانک ہے یا حسین یہ اس کا اپنا ہی کردار ہے۔ “ بارش اچانک پھر سے ٹپا ٹپ  تیزی سے برسنے لگی تھی۔  گویا وہ بھی اُن کی ہاں میں ہاں ملانے کو بے تاب ہو رہی ہو۔    

” میرا بیٹا مان!  اور کیا کہنا چاہتا ہے؟  انہوں نے ایک بار پھر چپس منہ میں رکھتے سلمان کو بولنے کا اشارہ دیا۔ یہ اس کا آخری لقمہ تھا۔  والد صاحب اپنے بچے کو مزید سننا چاہتے تھے۔ اس نے آخری گھونٹ حسرت سے بھرا اور پھر بولنے لگا۔
” ابا ، امی ، آپی !“ اس نے اس بار سب کو مخاطب کیا۔ ” میں جب اپنے ہم جماعتوں کو اصول توڑتے دیکھتا ہوں تو مجھے افسوس ہوتا ہے۔ ہم اگر اپنے اپنے درجے کے مطابق کسی قسم کی کرپشن کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تو جب جب ہمیں بڑا ہاتھ مارنے کاموقع ملے گا ہم اس سے دریغ کریں گے کیا؟ یہ ناممکن  ہے۔  ہم اسٹوڈنٹ  لائف میں سب سے بڑی کرپشن یہی کر سکتے ہیں نا کے خود محنت کیے بغیر دوسرے کا دیکھ کر یاچھاپہ مار کر نقل کر لیں اور بڑے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک دیں ؟ “ وہ لمحے بھر کو رکاتو اُن کی آنکھوں میں ستائش اُبھری۔  تینوں نے فقط اثبات میں گردن ہلا دی۔


” تو جب ہم بچپن سے ہی صرف لائف کی انجوئمنٹ کے نام پر دھوکہ دہی شروع کر دیں گے تو  احساسِ زمہ داری تو ہر گز  پیدا نہیں ہو سکتی بلکہ یہ عادت عمر کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتی جائے گی۔  اور جب اسی طرح کے لوگ اوپر آتے جائیں گے جن کے نزدیک یہ سب برا نہیں ہوگا بلکہ زندگی کے ششکوں کے نام پر وہ ہر طرح کی دھوکہ بازی سے کام لے کر سمجھانے والے کی باتوں کو ہنسی میں  اڑا دیں گے  جیسے میری باتوں کو اسکول میں اڑا  دیا جاتا ہے تو پھر ہم ملک کی بدحالی پر آنسو بہانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ “ وہ اب واقعی بہت اُداس تھا۔

” لیکن اس ملک میں تم جیسے سوچ رکھنے والے سپوت بھی تو موجود ہیں نا مان!“ زارا نے مان سے اس کے چہرے کو پکڑتے ہوئے کہا۔ والدہ کا سر فخر سے بلند تھا۔  اُن کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔ آج وہ اپنی تربیت کا پھل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں۔  دل ہی دل میں رب کا بے انتہا شکر ادا کر رہی تھیں۔ والد صاحب نے اُنہیں بھی ستائشی نظروں سے جیسے اشارہ دیا کہ بیگم تم کامیاب ٹھہری ہو اور خود دل ہی دل میں بیٹے کی بلائیں لے لیں۔

” ہمیں تم جیسے لوگوں کو دیکھ کر شعر یاد آرہا ہے۔ ۔  سنا دوں ؟  “ زارا نے شرارت بھری آواز میں کہا تھا۔
”سناؤ بھئی۔ “  یہ امی کی آواز تھی۔

” ارشاد ارشاد !“ سلمان کی آواز گونجی۔
؎” قعرِ دریا میں بھی نکل آئے گی سورج کی کرن

                  مجھ       کو       آتا       نہیں      محرومِ       تمنا       ہونا

مان  ہم اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔  خود کا محاسبہ بھی کرتے رہیں گے اور جہاں تک ممکن ہوا دوسروں کو سمجھانے کی بھی سر توڑ کوشش کرتے  رہیں گے۔  ان شاءلله  ! اُمید قائم رکھو ہمارا ملک ختم ہونے کے لیے نہیں ایک مثالی اسلامی ریاست کا نمونہ بننے کے لیے وجود میں آیا تھا۔  ہم اپنے بزرگوں کی قربانیاں رائیگاں  نہیں جانے دیں گے۔ بھیّا وطن کو اپنے خون سے سینچنے کی نیّت سے آج بھی گیا ہوا ہے تو پیچھے ہم اس گلشن کو اسلامی تعلیمات سے سیراب کریں گے۔ بلند حوصلے کبھی  ناکام نہیں ٹھہرتے۔ اس ملک کی بقا فقط اسلام میں ہے اور جتنا ہم خود کو اپنے دین سے جوڑیں گے اتنا ہم خوشحالی کے قریب تر ہوتےہیں جائیں گے۔ “ زارا کی آواز میں جوش تھا ،کچھ کر گزرنے کا جذبہ تھا۔ اپنے وطن کی محبت ،اپنے دین سے  الفت اس کے لہجے سے ٹپکی  پڑ رہی تھی۔

 اگر ملک کا فرد فرد ایسے ہی سوچنے لگ جائے تو کون ہے جو اسے بگاڑ سکے۔ مگر یہاں کسی کی سوچ اپنی ذات اور ذاتی مفاد سے آگے بڑھے تو کوئی بات ہے نا۔ جب ایثار کا جذبہ نہ ہو تو خود غرض معاشرہ ہی وجود میں آتا ہے۔ اور بات گھوم پھر کے وہیں آجاتی ہے کہ یہ سب دین سے ،جو کہ ہم مسلمانوں کی ہی اصل نہیں بلکہ اس ملک کی بنیاد بھی ہے، اس سے  دوری ہے۔ اسلام ہے تو افراد میں خیرخواہی کا جذبہ ہے ، خیر خواہی  کا جذبہ ہے تو ملک کی بقا ہے ، معاشرے کی ترقی ہے ورنہ صرف تباہی ہے۔

؏  جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

 


( آٹھ ماہ بعد)

مٹی  کی  محبت  میں  ہم  آشفتہ  سروں نے

وہ قرض اتارے ہیں بھولیں نہ بھولیں گے

” بٹالین عبیدہ  کے  ہونہار  آفیسر   سیکنڈ لیفٹیننٹ اسفندیار  آپریشن ” راہِ شہادت “ میں دورانِ مشن  لڑتے ہوئے وطنِ عزیز کے لیے جان کا نذرانہ پیش کر گئے۔ “ ٹی۔ وی چینل پر چلتی نیوز سن کے  سلمان نے ہوم ورک کرتے کرتے  منجمد آنکھوں سے اسکرین کو دیکھا اور اس کے بعد اس کی سماعت سن ہوگئی۔  ہاتھ میں پلیٹیں پکڑے میز کی طرف جاتی زارا  کا ہاتھ لمحے بھر کو کپکپایا اور اس کے نظریں دھندھلی ہوتی چلی گئیں۔ جب کہ کچن  سے آتی والدہ  کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں  مگر لبوں پر گہری پرسکون مسکان کا بسیرا تھا۔

کہاں سے لاتی ہیں یہ مائیں آخر اتنا حوصلہ؟

کچھ ہی گھنٹوں میں تم دیکھو گے تارکول کی اس صاف ستھری سیاہ گلی میں چند فوجی نوجوانوں کا دستہ قدم سے قدم ملائے داخل ہوتا ہے۔ چند ساعتوں میں وہ تمام اس ون یونٹ ڈبل سٹوری بنگلے کے سامنے کھڑے تھے۔

گھر کے افراد ایک جان کے بدلے ” سبز  پرچم “ اور اس پر رکھی ” سبز کیپ “ کو وصول کر رہے تھے۔

تین چہروں کے سامنے سے منظر دھندھلا رہا تھا۔ جبکہ چوتھا چہرہ کمالِ ضبط سے کام لیتے ہوئے سینہ چوڑا کیے وہ دو چیزیں وصول کر رہا تھا۔ جو اب ایک فرد کی جان کے بدلے میں ان کا کُل اثاثہ تھا۔

؎ خون میں نہاۓ ہوۓجسموں سے پوچھو

           اس  وطن  پہ  جاں  لٹانے   کا   مزہ   کیا   ہے

خون لٹانے والے تو آج سے ۷۶ برس پہلے بھی موجود تھے اور لہو کی ندیاں بہاتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھے مگر کیا اس ہر پل بہتے لہو کا حق ادا کرنے کو کوئی موجود ہے آج ؟

کیا ان ماؤں کو ایک مضبوط ، مستحکم اور محفوظ مستقبل عطا کرنے والا کوئی نظام ہے آج جو فخر سے آج بھی جان کے ٹکڑے اس دھرتی ماں پر وار دیتی ہیں ؟

کیا ان باپوں کو سکھ کا سانس فراہم کرنے والا معاشرہ ہے آج جو اپنا بازو اپنے ہاتھوں سے دفنا آتے ہیں ؟

صرف خون ہی نہیں مانگتا یہ وطن ۔۔

یہ خونِ دل مانگتا ہے۔  حوصلہ مانگتا ، محنت مانگتا ہے ، مخلصی مانگتا ہے۔ اپنے بقا کے لیے موجود اصولوں کی پابندی مانگتا ہے  بدلے میں وہ تمہیں جو دیتا ہے تم تو وہ بھی غیروں کو بیچنے پر رضا مند ہو جاتے ہو۔ 

حکامِ بالا کو کچھ بھی کہنے سے پہلے اپنا جائزہ لو۔ اگر خود میں جھول پاؤ تو ان کو سنواروں اور اس سوال کو ذہن کے پردوں سے کھینچ پھینکو کہ  ” اس  وطن نے کیا دیا ہم کو ؟ “

جو ایک سوال تمہارے شعور و لا شعور میں گونجتا رہے وہ صرف یہ ہونا چاہیے کہ ” کیا دیا ہم نے اس ملک کو؟“

تمت بالخیر

 


 

 

 

Welcome to Urdu Novels Universe, the ultimate destination for avid readers and talented authors. Immerse yourself in a captivating world of Urdu literature as you explore an extensive collection of novels crafted by creative minds. Whether you’re seeking romance, mystery, or adventure, our platform offers a wide range of genres to satisfy your literary cravings.

Authors, share your literary masterpieces with our passionate community by submitting your novels. We warmly invite you to submit your work to us via email at urdunovelsuniverse@gmail.com. Our dedicated team of literary enthusiasts will review your submissions and showcase selected novels on our platform, providing you with a platform to reach a wider audience.

For any inquiries or feedback, please visit our Contact Us page here. Embark on a literary adventure with Urdu Novels Universe and discover the beauty of Urdu storytelling

Writer's other novels:


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *