Urdu Novels Universe

A Universe of Endless Stories Awaits You

یہ کہانی ہے الگ وطن کی جدوجہد کی۔آزادی کی خاطر کی گئی کاوشوں میں سے چند کی۔ ہجرت کے کٹھن مرحلے سے گزرنے والوں لوگوں کی۔وطن کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی۔ اپنی مٹی کا قرض ادا کرنے والوے لوگوں کی۔

Read Online

 

8 مارچ 1944:                                    

“مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمۂ توحید ہے‘ نہ وطن نہ نسل… ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا‘ وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبۂ محرکہ کیا تھا؟ اس کی وجہ نہ ہندوئوں کی تنگ نظری تھی نہ انگریزوں کی چال‘ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا”۔ (مسلم یونیورسٹی علی گڑھ‘ 8 مارچ1944ء)۔

 

یہاں ہر سو طلباء کی ایک بڑی تعداد جمع تھی۔ جو اپنے محبوب قائد کے ہر خطاب کو سننا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ انہیں طلباء میں ایک حنان حیدر بھی تھا۔ یہاں ماحول خوب گرم تھا۔ آزادی کی خاطر کوششیں کرتے ہوئے رہنما اور تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے مختلف جامعات کے طلباء آزادی کیلئے سرگرم تھے۔                                      

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

یہ وہ زمانہ تھا کہ جب “برٹش راج” اور  ہندوؤں کے روز بہ روز بڑھتے مظالم سے تنگ آکر مسلمان رہنمائوں نے ایک الگ وطن کا سوچا۔ جہاں مسلمان اپنی زندگی پوری آزادی سے بلا روک ٹوک اور کسی ڈر کے بسر کر سکیں۔ جہاں ایک شہری کو اس کے مذہبی اور ثقافتی لحاظ سے ہر طرح کی آزادی حاصل ہو۔ ایک ایسا وطن جہاں برابری ہو۔ یہ زمانہ تھا مسلمانان ہند کی تحریک آزادی کا۔ جب سب کا ایک ہی مقصد ایک آرزو تھی ایک الگ آزاد وطن۔۔۔۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

حنان حیدر ضلع گورداسپور کی تحصیل بتالہ کے گاؤں برسائی کا رہائشی تھا۔ حنان کے دادا عبدالمجید اسغر کی بتالہ اور آس پاس کے علاقوں میں کافی زمینیں تھیں۔ حنان کے والد صاحب حیدر اسغر ان ہی زمینوں کی دیکھ بھال اور کھیتی باڑی کرتے تھے۔                                        

حنان حیدر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا طالبعم تھا۔ اس نے وہاں سے بی _اے اردو کیا تھا۔ اپنی تعلیم مکمل کر کے وہ آج ہی گورداسپور لوٹا تھا۔                   

 

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

“دادی جی! دیکھئیے تو زرا کون آیا ہے ۔۔۔”، حنان کی چھوٹی بہن ارم نے اسے گھر کے دروازے سے داخل ہوتے دیکھ کر کہا۔     

ان کا گھر حویلی نما تھا جس کا آدھا حصہ رہائشی تھا اور بقیہ آدھے میں ایک  طرف گودام اور اصطبل بنا تھا جبکہ        دوسری جانب بیٹھک تھی۔ اس حویلی نما گھر میں کل 6 افراد، رخسانہ خاتون اور ان کی بیٹی رودابہ اور بیٹا حیدر اسغر اپنی بیوی فریحہ اور دو بچوں، حنان حیدر اور ارم نور کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ حنان حیدر اپنی تعلیم مکمل کرکے آج ہی گاؤں واپس لوٹا تھا۔          

“ارے برخوردار! آگئے تم خیر خیریت سے، کسی پریشانی کا سامنا تو نہیں ہوا؟ ارے میرے دل میں تو اس ملک کے حالات دیکھ کر ہول اٹھتے ہیں، کہیں سفر کے نہ رہے اب تو”، رخسانہ خاتون نے پوتے کو دیکھتے ہوئے کہا۔                              

“جی دادی جی! خیریت سے پہنچ گیا”، حنان نے دادی سے پیار لیتے ہوئے انہیں جواب دیا۔ جا، جاکر آرام کرلے، نگوڑا علی گڑھ دور بھی تو اتنا ہے تھک گیا ہوگا، پھر اٹھ کر منہ ہاتھ دھو کہ کھانا کھا لینا۔ دادی نے پیار سے پوتے کو ہدایت دی۔ جی بہتر، یہ کہتے ہوئے وہ کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ فریحہ گھر پر موجود نہ تھیں وہ محلے میں موہن سنگھ کی بیٹی امرتہ کی  شادی پر گئیں تھیں اور حیدر ساتھ کے گاؤں میں کسی کام سے گئے تھے۔

▪︎▪︎▪︎▪︎

 

شام کے گہرے سائے ہر سو پھیلے تھے۔ چرند پرند دن بھر کی محنت اور دوڑ دھوپ کے بعد واپس اپنے آشیانوں کی       جانب گامزن تھے۔ برسائی کے اس سرخ دیواروں والے گھر کے مکین صحن کے وسط میں موجود پیپل کے گرد چارپائیاں بچھائے اپنے وطن کے موجودہ حالات پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔                       

ان کا وطن جس پر تجارت کو آئے انگریز قابض ہو چکے تھے۔ پہلے ان کا یہ قبضہ ڈھکا چھپا تھا اوپر اوپر سے صرف تجارت تھی۔ لیکن 1857 کی جنگ آزادی میں اہل ہند کی شکست کے بعد انگریز ہندوستان پر پوری طرح قابض ہو چکا تھا۔ اور 1نومبر1858کو ملکہ برطانیہ نے ہندوستان کی حکومت سنبھال لینے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس ملک میں خیر کے دنوں کو آئے عرصہ بیت چکا تھا۔ ایک جنگ تھی جو نا جانے کب سے چھڑی تھی اور جانے کب تک اسے ایسے ہی چلنا تھا۔ 

“تمہیں کیا لگتا ہے، نیا وائسرائے بٹوارا کرے گا یا نہیں؟”   حیدر نے حنان سے سوال کیا۔                                          

“مجھے نہیں لگتا کہ یہ بٹوارے کے حق میں ہے، شاید جلد ہی بدل دیا جائے”، حنان نے اپنے تئیں نتیجہ نکالا۔                     

 ہندوستان کا وائسرائے بدل دیا گیا تھا۔ ان کا حاکم بدلا جا چکا تھا۔ اور اس وقت ہر زبان پر ایک ہی قصہ تھا کہ آیا یہ وائسرائے ہند بٹوارے کے حق میں ہے یا نہیں ؟ قرارداد لاہور کو پیش ہوئے 4 سال بیت چکے تھے۔ پچھلے چار سال سے مسلم لیگ بٹورارے کے حصول کیلیئے سرگرداں تھی۔                                                  

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

حنان حیدر اپنی تعلیم سے فراغت کے بعد اب ایک اخبار کیلیئے کالم لکھتا تھا۔ اس کے کالم تاریخی نوعیت کے ہوتے تھے۔ اس کے ساتھ وہ والد کیساتھ زمینوں کو بھی دیکھتا تھا۔ حنان حیدر ایک باشعور شہری تھا، وہ ہر نئی آنے والی خبر کو باریک بینی سے دیکھتا تھا اور مستقبل کے حالات کا اندازہ کرتا تھا۔ یہ حالات بہت ہی کٹھن تھے۔ ان حالات میں ہر قدم پھونک پھونک کا رکھنا تھا۔ یہ دور، یہ وقت بہت نازک تھا۔ ایک خدشہ جو ہر وقت کسی سائے، کسی تلوار کی مانند سروں پر لٹکتا تھا کہ آیا بٹوارے کے بعد ان کا ضلع ہندوستان میں آئے گا یا پاکستان میں۔ یہ سوچنا ایسی بھی کوئی انہونی نہ تھی، لیکن یہ بہت دور کی بات تھی ابھی اس وقت تک کیلیئے بہت مشکلات بہت امتحانات تھے ۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

شام کا وقت تھا، حنان اور ارم دور دراز کھیتوں میں گھڑسواری کو نکلے تھے۔ ان دونوں بہن بھائیوں کو گھڑ سواری کا بہت شوق تھا۔ بچپن سے لے کر اب تک وہ دونوں یونہی کچھ دنوں بعد اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر نکل جاتے تھے۔ ارم حنان سے 5 سال چھوٹی تھی۔ اس نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی۔ اس وقت لڑکیوں کی تعلیم کا ایسا کوئی رواج نہ تھا، لیکن حنان حیدر اپنی چھوٹی بہن کی ہر خواہش پورا کرنا اپنا فرض گردانتا تھا۔

“بھائی آپ کو پتا ہے کل جب آپ ساتھ والے گاؤں گئے ہوئے تھے تب پھوپھو کو دیکھنے کچھ لوگ آئے تھے” ارم نے حنان کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا۔ اچھا بھئی واہ! مجھے تو نہیں بتایا کسی نے۔ حنان نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔ “سہی وقت آنے پر آپ کو بھی پتا چل جائے گا۔۔” ارم نے فلسفیانہ انداز میں حنان کو چھیڑا۔ ایسے ہی باتیں کرتے دونوں نے اپنے گھوڑے واپس گاؤں کی جانب موڑ دیے۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

یہ منظر مہمان خانے کا تھا، جہاں بہت سے مہمان جمع تھے۔ یہ لوگ رودابہ کی بات پکی کرنے آئے تھے۔ رودابہ کا رشتہ لاہور سے آیا تھا۔ احمد خان  سابق جرنیل تھے، انہی کے بیٹے اعجاز احمد خان سے رودابہ کی بات پکی ہوئی تھی۔ آج جمعہ تھا اور اگلے جمعہ کو رودابہ کا نکاح تھا۔ نکاح کے فوراً بعد رخصتی طے پائی تھی۔ حنان گھر کی طرف مہمان خواتین کو واپسی کا پیغام دینے آیا تھا۔ مہمان خانے کی ایک کھڑکی باہر صحن کی جانب کھلتی تھی، وہ صحن میں کھڑا ارم سے مہمانوں کو واپسی کا بتانے کا کہہ رہا تھا کہ جبھی حمیدہ بیگم(رودابہ کی ساس) کی نظر اس پر پڑی۔                          

“اجی رخسانہ بہن! یہ بچہ تمہارا پوتا ہے؟”    انہوں نے دادی جی سی استفار کیا۔ “ہاں میرا پوتا ہے ماشااللہ علی گڑھ سے پڑھ کر آیا ہے ” دادی جی نے فخر سے انہیں بتایا۔

مہمان واپس جا چکے تھے ۔گھر کے تمام افراد رودابہ کی شادی کیلئے بہت خوش اور پر جوش تھے۔ اتنی عرصہ بعد کوئی تقریب ہو رہی تھی اس سرخ حویلی میں۔ عورتیں مرد دونوں ہی تیاریوں میں لگ گئے تھے۔ لیکن ایک طرف خوشی تھی تو دوسری جانب ملک کے حالات کا دھڑکا ہر وقت لگا تھا۔ جنگ عظیم دوم جاری وساری تھی۔ برطانیہ اور امریکہ پوری طرح حاوی تھے۔ امریکہ کی جانب سے جاپان پر دو ایٹمی دھماکے کر کے ہیروشیما اور ناگاساقی کو ملیامیٹ کر دیا گیا تھا۔ یہ ایک افسوسناک واقعہ تھا۔ طاقت کی اس جنگ میں لاکھوں لوگ اپنی جانیں گنوا چکے تھے۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

آخر کار جمعہ بھی آ پہنچا تھا۔ سرخ دیواروں والی اس حویلی کو مکمل طور پر سجایا گیا تھا۔ رودابہ نے سرخ کام دار لہنگا پہنا تھا، جبکہ ارم نے اپنے لیئے خاص طور پر مغلیہ شہزادیوں کی طرز کا سفید فراک بنوایا تھا جس کے اوپر ہلکی کڑھائی کی ہوئی تھی۔

جمعہ کی نماز کے بعد نکاح اور رخصتی تھی۔ حنان اس وقت سفید کاٹن کے شلوار قمیص میں ملبوس مسجد جانے کی تیاری میں تھا۔ مردوں کیلئے مسجد میں ہی انتظام کیا گیا تھا۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

حنان اس وقت نکاح نامہ اٹھائے، رودابہ سے دستخط کروانے اس کے کمرے میں موجود تھا۔ رودابہ کو اس نے ہی دستخط کرنے سکھائے تھے۔ وہ وہاں اس وقت اس کے سرپرست کی حیثیت سے موجود تھا۔ دستخط ہو چکے تھے وہ رودابہ کے سر پہ ہاتھ رکھتا باہر کی طرف چل دیا، کمرے سے نکلتے ہی اس کی نظر ارم کے ساتھ کھڑی اسی کی ہی ہم عمر لڑکی پر پڑی۔ اس نے سفید غرارہ پہن رکھا تھا۔ متناسب قد ،سانولی رنگت وہ بہت حسین تھی، اگلے ہی لمحے وہ سر جھٹکتا آگے بڑھ گیا۔

دوسری جانب ارم اپنے ساتھ کھڑی رعنا کو اپنے اور حنان کے بچپن کا کوئی قصہ سناتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔ رعنا بھی دلچسپی سے سنتے ہوئے محظوظ ہو رہی تھی۔(رعنا حمیدہ بیگم کے بڑے بیٹے عرفان احمد اور بہو فاطمہ کی اکلوتی بیٹی تھی۔) دونوں لڑکیاں قلیل عرصے میں اچھی سہلیاں بن چکی تھیں، دونوں باتوں میں مگن تھییں جب دادی جی نے دونوں کو ہی مہمانوں کو دیکھنے کا حکم دیا۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

2ستمبر1945:                                                       آج سرکاری طور پر جنگ عظیم دوم اختتام پذیر ہو چکی تھی۔ برطانیہ جنگ جیت چکا تھا، لیکن اس لمبی جنگ کو لڑنے میں اقتصادی طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ اب ایک بات واضع ہونے لگی تھی کہ جلد یا بدیر انگریز ہندوستان سے چلے جائیں گے۔ بٹوارا کر کے یا بٹوارا کئے بغیر انگریزوں کو ہندوستان سے جانا تھا۔ اہل ہند کو ان کی سرزمین واپس ملنی تھی۔

“بھائی !میں اکثر ایک بات سوچتی ہوں۔۔” ارم نے حنان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ “کیا گڑیا؟ “حنان نے سوال کیا۔ “کہ یہ انگریز ہندوستان میں اصل میں آئے کب تھے؟ کوئی ایک دن میں تو قابض نہیں ہوسکتا نا؟”۔ گڑیا یہ ایک لمبی مگر دلچسپ کہانی ہے۔ آؤ میں تمہیں یہ کہانی سناتا ہوں، حنان نے بہن کو پاس بٹھاتے ہوئے کہا۔ اتنے میں اماں اور دادی جی بھی ساتھ ہی آکے بیٹھ گئیں، ان دونوں کو بھی حنان کی سنائی کہانیوں میں گہری دلچسپی تھی۔

 

“تو یہ بات ہے پندرہویں صدی کی، جب انگریز باشندے سمندر پار کر کے ہندوستان کی سرزمیں پر تجارت کو آئے تھے۔ ہندوستان سے مصالحے کی تجارت ان کا اہم مقصد تھا۔ مغل بادشاہ جہانگیر نے انہیں “سورات” میں اپنی صنعتیں بنانے کی اجازت دی۔ اب جب کہ ان کی یہاں صنعتیں تھیں تو ان کی حفاظت بھی درکار تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اس قابل تھی کہ وہ بہترین سپاہیوں کو اچھے معاوضے کے بدلے رکھ سکے۔ شاہانہ معاوضے دئے جانے لگے اور بہترین سپاہی رکھ لئے گئے۔ اب ہندوستان کو دیکھتے انگریز کی نیت خراب ہوگئی”، اس نے کہانی بیان کی سب دم سادھے سن رہے تھے۔ ” انگریز جرنیل کلایو تمام بنگال پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ شہنشاہ دہلی پہلے ہی اس کے ہاتھ میں کٹھ پتلی تھا۔ بنگال پر قبضے کے لیے بلیک ہول کا فرضی افسانہ تراشا گیا اور میر جعفر سے سازش کی گئی۔”                    

23 جون 1757ء

 سراج الدولہ نواب بنگال اور انگریز جرنیل کلائیو کے درمیان جنگ پلاسی لڑی گئی۔ پلاسی کلکتہ سے 70 میل کے فاصلے پر دریائے بھاگیرتی کے کنارے قاسم بازار کے قریب واقع ہے۔ میر جعفر نے نواب سے میدان جنگ میں غداری کی اور یوں یہ سات سالہ جنگ انگریز جیت گیا۔ کلائیو کے لشکر میں موجود 2500 جنگجو ہندوستانی جبکہ صرف 500 انگریز تھے۔ اور یوں پلاسی کی جنگ میں شکست کے ساتھ ہی 1757 میں ہندوستان میں انگریز راج کی بنیاد رکھی گئی”، اس نے کہانی ختم کی، یہ انکشاف ارم کیلئے نیا تھا، باقی سب تقریباً آگاہ تھے۔

 “بھائی اگر میدان جنگ میں نواب کیساتھ غداری نہ ہوتی تو انگریز کبھی یوں ہم پہ قابض نہ ہوتے۔۔۔” ارم نے سوچتے ہوئے کہا۔

“نہیں گڑیا! بات غداری کی نہیں ہے بات ہندوستان کے حکمرانوں کی غفلت کی ہے، جب حاکم اپنی رعایا کو چھوڑ کر دوسری فضولیات میں مشغول ہو جائیں تو سلطنتیں یوں ہی بکھر جاتی ہیں۔ کوئی بھی باہر سے آکر اپنا حق جما لیتا ہے،” انگریز حکومت مالی طور پر بہت مضبوط ہے، انہیں لوگوں سے کام نکلوانے آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ 1757 میں جنگ پلاسی ہو یا 1764 میں جنگ بکسر یا پھر 1945 میں جنگ عظیم وہ جیتتے آئے ہیں۔ ہم ان کا مقابلہ جب ہی کرسکتے ہیں کہ ہم باہمی طور پر اتحاد و اتفاق سے رہیں اور ہمارے حکمران اپنے لوگوں سے مخلص۔ ہمیں قائد جیسے رہنمائوں کی ضرورت ہے۔ حنان اپنی بات کر کے اٹھ کے چلا گیا، وہ جب بھی اس موضوع پر بات کرتا تو جذباتی ہو جاتا تھا اور وہ بے بس تھا۔۔۔۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

19 ستمبر 1945:

آج صبح وائسرائے ویول نے انتخابات کا اعلان کیا تھا۔ یہ فیصلہ کن انتخابات ثابت ہونے تھے، ان کے نتائج نے ہندوستان کے مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ کرنا تھا۔ ان انتخابات سے یہ طے پانا تھا کہ آیا مسلم لیگ ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندگی کی اہل ہے یا نہیں۔۔

ہر طرف انتخابات کی ہی بات ہو رہی تھی۔ مسلم لیگ اپنی پوری کوشش کر رہی تھی ان انتخابات کو اپنے حق میں کرنے کیلیئے۔ محمد علی جناح اپنی گرتی صحت کا خیال کئے بغیر مختلف خطوں کے دورے کر رہے تھے وہ لوگوں سے خطاب کرتے تھے۔ عوام میں آگاہی بہت ضروری تھی ۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

دسمبر1945- جنوری1946:                     

گورداسپور میں ہندو اور سکھ اکثریت تھی۔ گورداسپور سے مسلم لیگ کا کوئی ایم۔ایل۔اے کھڑا نا ہوا تھا۔ گورداسپور کی اکثریت نے کانگریس کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

یہاں ایسے ملت فروش بھی موجود تھے جو لوگوں کو چیخ چیخ کر یہ بتاتے تھے کہ نعرہ پاکستان ایک حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ یہ وہ مسلمان تھے کہ جو شاید بے حس ہو چکے تھے اور وہ اپنی زندگیاں یونہی غلامی کرتے گزار دینا چاہتے تھے۔

 

انتخابات ہو چکے تھے۔ مرکزی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم لیگ مسلمانوں کیلیئے مختص کردہ تمام 30 سیٹیں مسلم لیگ جیت چکی تھی۔ صوبائی اسمبلی میں مسلم سیٹوں کی مخصوص تعداد 495 تھی جبکہ مسلم لیگ 434 سیٹیں جیت کر ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ کہلائی۔ انتخابات کے دنوں حنان حیدر علی گڑھ جا چکا تھا، وہ طلباء کی اس جماعت میں شامل میں تھا جو قائد کے خفیہ سماجی کارکن کہلائے. ان طلباء نے مسلیم لیگ کے فروغ کیلیئے پرچے اور پوسٹر لگائے، لوگوں میں انتخابات کی آگاہی پھیلائی۔ “پولنگ بوتھ” قائم کرنے جیسی خدمات انجام دیں۔ ان تمام کاموں میں حنان حیدر بطور علی گڑھ کا سابقہ طالبعلم پیش پیش رہا۔

مسلم لیگ کی جیت سے ہر دل مسرور تھا۔ یہ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی جیت تھی۔

▪▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

2 ستمبر 1945:                              

اہل ہند کی مسلسل کوششوں اور جدوجہد اور جنگ عظیم دوم میں مالی طور پر تباہی کی وجہ سے برطانوی حکومت کے قدم ہندوستان سے اکھڑنے لگے تھے۔ اب رفتہ رفتہ انگریز واپسی کی کر رہے تھے۔ ایسے میں ہندوستان میں ایک عبوری حکومت قائم کر دی گئی تھی۔ جس کا فریضہ حکومت اور انتظام اہل ہند کو سپرد کرنا تھا۔ انگریز وزارت ہندوستان کو آزادی کا وہ پھل تقسیم کرنے جا رہی تھے جس کیلئے جنگ آزادی میں لاکھوں لوگوں کا خون بہا تھا۔ تقسیم ہند کا ابھی تک کوئی نام و نشان نہ تھا۔ کانگریس یہ چاہتی تھی کہ جلد از جلد انگریز ہندوستان سے نکلیں اور حکومت کانگریس کے ہا تھ آئے۔ مسلم لیگ کا محرک تھا کہ انگریز جاتے ہوئے ہندوستان کو دو حصوں یعنی پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم کر کے جائیں کیونکہ اگر انگریز بغیر تقسیم کے چلے گئے تو مسلمانوں کے ہاتھ کچھ نہیں آنا۔ پھر ہندو حکومت کرتے اور مسلمان تا عمر غلامی کے اندھیروں میں ڈوب جاتے۔ مسلمانوں نے قریباً دو سو سال تک غلامی  کی تھی وہ اب پھرغلامی کی سکت نہ رکھتے تھے۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

گورداسپور کے  لوگ جو عرصے سے بھائیوں کی طرح رہ رہے تھے، جہاں سکھ مسلمان کا کوئی تفرقہ نہ تھا، جہاں مسلمان اور سکھ لڑکیاں سکھیاں (سہیلیاں) اور لڑکے پکے یار تھے۔ وہاں اب یہ بھائی چارہ آہستہ آہستہ ماند پڑ رہا تھا۔ اب وہاں کے لوگ پہلے کی طرح بے خوف و خطر ایک دوسرے کے گھروں کو نا جاتے تھے۔ ان گلیوں میں جہاں زندگی مسکراتی تھی وہاں اب خوف کا ناگ کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔ وقت رفتہ رفتہ سرک رہا تھا۔ سیاست اور عام زندگیاں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھیں۔ ہندو مسلم فسادات اپنا زور پکڑ چکے تھے کیونکہ انگریز وزیر اعظم نے

20فروری 1947 کو یہ اعلان کیا تھا کہ جون 1948 کو انگریز ہندوستان چھوڑ دے گا لیکن یہاں کا گورنر جرنل اور وائسرائے ماؤنٹبیٹن کو مقرر کردیا جائے گا۔ انگریز جا رہا تھا۔ کب جا رہا تھا؟ کیسے جا رہا تھا یہ بات ہندوؤں کیلئے شاید بے معنی تھی، کانگریسی رہنماؤں کو صرف مستقبل قریب میں ملنے والی حکومت اور راجدھانی دکھائی دے رہی تھی۔

 

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

ارے فریحہ! سنو تو۔ دادی جی نے بہو کو پکارا۔ جی امی بولیں، وہ ان کے پاس بان کی چارپائی پر براجمان ہوگئیں۔ “ارے یہ اپنی رودابہ کی دیورانی کی لڑکی کس قدر پرخلوص اور ملنسار بچی ہے۔ سیدھا دل کو لگتی ہے”۔                              

” ہاں اماں ہے تو بہت پیاری بچی، بہت اچھی عادات ہیں اپنی ارم کی کیسی پکی سہیلی بن گئی”، بہو نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔

“فریحہ میں سوچ رہی تھی کہ یہ رعنا نور اور حنان کی جوڑی کیسی لگے گی؟ مجھے تو رعنا اپنے حنان کیلیے بہت پسند آئی ہے”، انہوں نے اب کی بار قدرے رازداری سے بہو سے استفار کیا۔ “بالکل چاند سورج کی جوڑی لگے گی حنان اور رعنا کی”، فریحہ نے مستقبل میں دونوں کو ساتھ سوچتے ہوئے اپنی رائے دی۔ چلو پھر میں آج ہی حمیدہ بہن کو ٹیلی فون کر کے بات کرتی ہوں، دادی جی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کہ جلد از جلد سارے معاملات نمٹا کر کے رعنا کو لے آتیں، لیکن ہائے ری قسمت ملک کے حالات ایسے نا تھے کہ ان میں پورا کا پورا خاندان گورداسپور سے لاہور تک کا سفر کرتا۔ لیکن خیر زبانی کلامی تو بات ہو سکتی تھی نا۔ مئی کا مہینہ چل رہا تھا یہ سال بھی رفتہ رفتہ اپنے اختتام کی جانب گامزن تھا۔ نا جانے کب خیر کے دن آنے تھے۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

حیدر صاحب آج دو دن بعد گھر لوٹے تھے۔ وہ امرتسر کسی کام سے گئے ہوئے تھے۔ اس دوران ان سے بات کئے بغیر لاہور فون بھی نا کیا جاسکا۔ آج دادی جی نے ان سے بات کرکے پھر لاہور فون کرنا تھا۔ سب اس متوقع رشتے کو لیکر بہت خوش تھے۔ حنان اس وقت علی گڑھ میں تھا اپنے کام کے سلسلے میں۔

حیدر کو ویسے تو اس رشتے سے کوئی اعتراض نا تھا لیکن وہ چاہتے تھے کہ ایک دفعہ حنان سے بھی پوچھ لیا جاتا۔ اب اس کی واپسی کا انتظار تھا ۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

ہندوستان کے حالات روز بہ روز خراب ہو رہے تھے۔ کلکتہ میں روز دنگے فساد ہو رہے تھے۔ یہ فسادات برپا کرنے والے وہ لوگ تھے جو امن و شانتی کے خلاف تھے۔ حنان اپنا ایک کالم لکھنے کی غرض سے علی گڑھ میں موجود تھا۔ وہ آج کل ہندوستان کے حالات قلم بند کر رہا تھا تاکہ آگے آنے والی نسلیں اس عظیم تحریک کو یاد رکھیں، تاکہ اگلی نسلیں ہندوستان کے ان جری نوجوانوں کو یاد رکھیں، تاکہ لوگ حقائق سے آشنا ہوں سکیں، تاکہ لوگوں کو یہ پتا چلے کہ ہندوستان کے مسلمان حق بجانب تھے۔ اس کا کالم تقریباً پورا ہوچکا تھا، وہ اس پر نظر ثانی کر کے ایک ایڈیٹر کو دے آیا تھا۔ اسے ابو کا پیغام آج ہی موصول ہوا تھا وہ اس سے کوئی ضروری بات کرنا چاہتے تھے اس لئیے اسے کام جلد از جلد ختم کر کے واپسی کی تاکید کر رہے تھے۔ آج 31 مئی تھی اگر ابھی وہ نکلتا تو کل صبح تک وہ امرتسر پہنچ جاتا۔ ابھی وہ اسی کشمکش میں کھڑا تھا کہ اسے ایک دوست باری حسن مل گیا ۔ باری سے باتیں کرتے کرتے اسے وقت کا احساس ہی نہیں ہوا ۔ باری نے اسے اپنے گھر چلنے کی دعوت دی جسے اس نے تھوڑے تکلف کے بعد ہی لیکن قبول کر لیا۔ وہ دونوں رات گئے تک پرانے قصے دہراتے رہے اچانک ہی باتوں میں باری نے اس سے پوچھا ” حنان تم اپنی شادی پر کب بلا رہے ہو؟ ” باری کے اس سوال پر اس کے سامنے اس لڑکی کا چہرا لہرا گیا۔ “تمہارے ولیمے کے بعد، حنان نے توپ کا رخ اس کی جانب موڑ دیا۔ یوں ہی ہنسی مذاق کرتے کرتے دونوں سو گئے۔

اگلی شام کو حنان حیدر باری کی اماں جان سے ڈھیروں دعائیں اور نصیحتیں لئیے علی گڑھ اسٹیشن روانہ ہو گیا۔ علی گڑھ سے امرتسر کا تقریباً سترہ اٹھارہ گھنٹوں کا سفر، پھر امرتسر سے بتالہ بھی اچھا خاصا سفر تھا۔ اس نے خدا کا نام لے کر سفر شروع کیا۔۔۔۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

شام کا وقت تھا حنان حیدر گھر پہنچ چکا تھا۔ کچھ دیر آرام کرنے بعد دادی جی نے اسے اپنے پاس بلا لیا ۔ وہاں دادی جی کے ساتھ امی اور ابو بھی بھی موجود تھے۔ آؤ حنان! مجھے تم سے ایک بات کرنی تھی، ابو نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ جی ابو کہیں، اس نے لکڑی کی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ حنان تمہاری دادی اور ہم نے تمہارا دشتہ طے کرنے کا سوچا ہے بیٹا، عرفان بھائی کی بیٹی سے۔ تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں؟ انہوں نے مدعا بیان کیا۔ “نہیں ابو مجھے بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے”، اس نے باپ کے سامنے رضامندی ظاہر کی۔

ارم اور حنان دونوں چھت پر بیٹھے ڈوبتے سورج کا نظارہ کر رہے تھے۔ بتالہ کی اس صاف ستھری ہوا، گولیوں کی آواز اور بارود کی بو سے پاک ہوا کتنی خوبصورت تھی نا۔ یہ وقت کتنی بے فکری کا تھا۔ یہ منظر کتنا مکمل اور خوبصورت تھا۔

“بھائی آپ کو پتا ہے آپ کی شادی کو لے کر میں کتنی خوش ہوں”، ارم نے جوش سے کہا۔

” گڑیا خوش تو میں بھی ہوں لیکن ۔۔۔” اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ اسے وہ لڑکی بارہا یاد آرہی تھی۔ ناجانے کیوں، لیکن ارم، ارم اس کی لاڈلی بہن اس کی راز دار تھی وہ اپنے دل کی بات اس سے کہہ سکتا تھا۔ اس نے اپنی ساری پریشانی اس کے گوش گزار دی ایک وہ ہی تو تھی جس کے پاس حنان حیدر کی ہر پریشانی کا حل ہوتا تھا۔ حنان حیدر کی لاڈلی بہن ۔ “ارے بھائی وہ ہی تو رعنا نور ہیں، آپ کی ہونے والی بیوی”، ارم نے اس کی بات سن کر خوشی سے چلاتے ہوئے کہا۔ اس کی آواز اس قدر بلند تھی کہ حنان کو بے ساختہ اس کے منہ پر ہاتھ رکھنا پڑا۔ ارم نے حنان حیدر کو جو خوشی کی خبر سنائی تھی اس پہ اس کا دل چاہ رہا تھا پورے گورداسپور کو اکٹھا کر کے مٹھائی بانٹے، جشن منائے۔ حنان کے دل کی دعا بن مانگے ہی قبول کر لی گئی تھی۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

3 جون 1947:                                   

آج وائسرائے لارڈ ماؤنٹبیٹن نے تقسیم پلان پیش کیا تھا۔ جسے لیکر مسلم لیگ کی جانب سے قائداعظ، کانگریس کی جانب سے جواہرلال نہرو اور سکھ رہنما بلدیو سنگھ نے اپنی رضامندی ظاہر کر دی تھی۔ ماؤنٹبیٹن یہ تقسیم پلان لیکر برطانیہ روانہ ہوگیا تھا، تاکہ برطانوی حکومت سے منظوری کروائی جائے۔

اس پلان کے مطابق ہندوستان کو 15 اگست 1947 کو دو آزاد ریاستوں بھارت اور پاکستان میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ تقسیم پلان کے مطابق گورداسپور کا ضلع پاکستان  کا حصہ بننا تھا۔ یہ بات یہاں کے لوگوں کیلیئے تسلی بخش اور باعث خوشی تھی۔

دادی جی نے لاہور فون کر کے رودابہ کی ساس کو اپنی خواہش سے آگاہ کیا تھا۔ انہیں یہ جان کر بہت خوشی ہوئی تھی، لیکن انہوں نے بیٹے اور بہو سے مشورہ کر کے جواب دینے کا کہا تھا۔ آج حمیدہ بیگم کا فون موصول ہوا تھا جس میں انہوں نے لاہور آنے کی دعوت دی تھی۔ دونوں خاندانوں کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ رمضان شروع ہوتے ہی حیدر کا خاندان لاہور روانہ ہوجائے گا اور رمضان کے بعد حنان اور رعنا کی منگنی کر دی جائے گی۔ دادی جی ابھی سے تیاریوں میں جت گئی تھیں۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

رفتہ رفتہ وقت گزر رہا تھا اور تقسیم کا دن قریب آتا جا رہا تھا۔ ایسے میں ہندو مسلم فساد بھی بہت بڑھ گئے تھے۔ 10 جولئی 1947 کو محمد علی جناح نے یہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان کہ گورنر جرنل کا عہدہ قاعد خود سنبھالیں گے، جب کہ کانگریس نے گورنر جنرل کے عہدے کیلیئے ماؤنٹبیٹن کو چنا تھا۔ مسلم لیگ کا یہ فیصلہ ماؤنٹبیٹن کو بہت گراں گزرا ۔

ریڈ کلف ایوارڈ جو کہ دونوں ممالک کی سرحدیں واضع کرنے کیلئے تشخیص دیا گیا تھا۔ اس کے مطابق اگر گورداسپور پاکستان کو جائے تو نقشہ بہت بد صورت دکھے گا، اس لئے گورداسپور کو ہندوستان میں شامل کر دیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ پرسوں یعنی 17 جولئی کو کیا گیا تھا۔ آج 19 جولئی 1 رمضانالبارک تھی۔ سرخ حویلی کے مکیں یہ سن کر واقعتاً پریشان ہو گئے تھے۔ “ارے حیدر میں کہتی ہوں لاہور جانا تو ہے ہی آج بھی اور تقسیم کے بعد بھی اور کل جو تم نے جلالپور میں زمین بیچی ہے ان پیسوں سے لاہور جا کر کوئی چھوٹا موٹا مکان خرید لیں گے۔ ہماری یہاں اتنی ہی لکھی تھی”، دادی جی نے بیٹے کو مشورہ دیا۔ یہ حویلی حنان کے دادا نے اپنے شادی سے قبل بہت چاؤ سے بنوائی تھی ۔ اس حویلی میں  زندگی مسکراتی تھی، یہاں اس سے محبت کرنے والے آباد تھے۔ کسی نے اپنے اس جان سے پیارے گھر کو یوں چھوڑنے کا سوچا نہ تھا۔ سب بہت اداس تھے، لیکن کہیں دور اندر سب نے اس موقع کیلیئے خود کو تیار کیا ہوا تھا، تبھی آج ہر ایک دوسرے کو تسلی دے رہا تھا۔ لاہور میں زندگی کیسی ہوگی یہ بتا رہا تھا۔ ان کا جانا دو دنوں کیلیئے موقف ہو چکا تھا۔ اب گھر کو ہمیشہ کیلیئے چھوڑنا تھا اتنی دیر تو بنتی تھی۔ اپنا گھر، اپنا علاقہ، اپنا دیس چھوڑنا آسان نہیں ہوتا۔ جگرا چاہیئے ہوتا ہے۔ انسان جہاں رہتا ہے وہاں کی مٹی، وہاں کی ہوا سے بھی محبت کرتا ہے، چاہے وہ جگہ کیسی ہی کیوں نہ ہو اس کیلیئے کسی جنت سے کم نہیں ہوتی۔ اور سرخ حویلی کے مکین اپنی یہ جنت چھوڑے جا رہے تھے۔ صحن کے وسط میں موجود پیپل اداس تھا، اس کے ساتھ کھڑی ارم بھی اداس تھی۔ لیکن جانا تو تھا۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

21 جولائی 1947:                            

حیدر اسغر کا خاندان اس وقت امرتسر ریل اسٹیشن پر موجود تھا۔ عورتوں کو ریل کے اندر بٹھا دیا گیا تھا، جبکہ حیدر باہر کھڑے حنان کو ضروری ہدایات دے رہے تھے۔ حنان ان کےساتھ نہیں جا رہا تھا۔ اسے گورداسپور میں ہی رکنا تھا ابھی۔ اس نے فیصلہ کیا تھا کہ جب تک اس کے علاقے کا آخری فرد ریل پر پاکستان کیلئے سوار نہیں ہو جاتا وہ یہیں رکے گا۔ اسے اپنی مٹی کا قرض ادا کرنا تھا۔ پنجاب کے حالات بہت خراب تھے۔ کلکلتہ میں شروع ہونے والے فسادات تیزی سے امرتسر کی جانب بڑھ رہے تھے۔ گورداسپور میں بھی امن کے دشمنوں نے فساد برپا کیا ہوا تھا۔ ایک جانب اگر شر پسند مسلمان کسی ہندو کا گھر جلاتے تو دوسری جانب سے شر پسند ہندو اس واقعے کا بدلہ پورا کرتے۔ بدلے کی یہ لڑائی کئی معصوموں کی جانیں لے رہی تھی۔ حنان حیدر اپنے لوگوں کو ایسے ہی شر پسندوں سے بحفاظت پاکستان تک پہنچانا چاہتا تھا۔ گو کہ بتالہ میں مسلمان اتنے نہ تھے لیکن ہجرت بہت ہی کٹھن عمل تھا۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

سرخ حویلی کے مکین چند روز قبل بخیروعافیت لاہور پہنچ چکے تھے۔ لاہور میں ان کا پر تپاک استقبال کیا گیا تھا۔ وہاں حالات ابھی ایسے نہ تھے کہ گھر خریدا جا سکے۔ اس لئیے ابھی وہ رودابہ کے سسرال ہی میں ٹھہرے تھے۔ لاہور اس وقت کہیں سے بھی وہ زندہ دل لاہور نہ لگ رہا تھا۔ وہ لاہور تو کہیں کھو گیا تھا۔ اس لاہور میں مسکراہٹوں کے بجائے آنسو تھے۔ اس لاہور میں پھولوں کی مہک کے بجائے بارود کی بو تھی۔۔۔۔۔

 

ماہ رمضان قدم قدم آگے بڑھ رہا تھا اور آزادی کا دن  قریب آتا جا رہا تھا۔ گورداسپور میں مسلمانوں نے چند دن قبل جن سکھوں کے گھر پر پہرے دئیے تھے آج وہ ہی ان کی جان کے دشمن بنے تھے۔ وہاں رہنا اب دو بھر ہو چکا تھا۔ جن کا کوئی بھی متوقع پاکستان میں موجود تھا ان کو بھیجا جا رہا تھا۔ سرکاری طور پر ابھی تقسیم نا ہوئی تھی اور بغیر تقسیم ہجرت نہیں کی جاسکتی تھی ۔ 

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

14 اگست 1947:                                

تقسیم جو کہ 15 اگست کو ہونی تھی آج ہی کر دی گئی تھی۔ آج کے دن پاکستان کے لوگوں نے اپنا پہلا یوم آزادی منایا۔ 27 رمضان المبارک کا یہ دن جہاں اپنے ساتھ آزادی کی خوشی لایا تھا وہیں لاکھوں لوگوں کیلیئے قیامت کا سماں ثابت ہوا۔ اس بےوقتی اور بری منصوبہ بندی سے کی گئی تقسیم کی وجہ سے پنجاب کے مسلمانوں کو آناًفاناً ہی سکھوں کی قتل وغارت سے بچ بچا کر مغربی پنجاب ہجرت کرنا پڑی۔ ملک میں ہر جانب کہرام مچ چکا تھا۔ دونوں طرف سے قتل و غارت ہو رہی تھی۔ ہجرت کرنے والے بمشکل ہی زندہ سلامت بارڈر پار کر پاتے تھے۔ لاہور، امرتسر، دہلی، بمبئی ہر طرف آگ کے الاؤ بھڑک رہے تھے، خون کی ندیاں بہہ رہیں تھیں۔ رخسانہ بیگم کو ہر وقت گورداسپور میں موجود پوتے کا غم لگا رہتا، ان کا بہادر پوتا جو اپنے گاؤں کے لوگوں کیلیئے وہیں موجود تھا۔۔۔۔

 

آج عید کا دن تھا۔ یہ عید بھی بہت سوگوار اور خون سے لت پت تھی۔ اس عید پر خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ عید کے اس بڑے دن پہ رخسانہ بیگم نے سب کی موجودگی میں رعنا نور کے ہاتھ میں حنان حیدر کے نام کی انگوٹھی پہنا دی تھی۔ “خوش رہو،جیتی رہو”، انہوں نے رعنا کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے دعا دی۔ اب انہیں حنان کا انتظار تھا۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

آدھی رات کا وقت تھا۔ ہر طرف گھپ اندھیرا اور دل دہلا دینے والی خاموشی تھی۔ ایسے میں دور سے گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دی۔ گھڑ سوار اپنا منہ مکمل چھپائے ہوئے تھے۔

“جلدی کرو زیادہ وقت نہیں ہے، آج رات کی آخری گاڑی کو روانہ ہونے میں آدھا گھنٹا باقی ہے”، ایک گھڑ سوار نے اپنے ساتھی کو مخاطب کیا۔  “تم واپس مڑ کر حنان کی خبر لو، وہ ابھی تک پہنچا کیوں نہیں۔ وقت کم ہے جلدی جاؤ”، اس نے کافی تشویش سے دوسرے ساتھی کو ہدایت دی۔ وہ ہدایت پا کے پیچھے مڑ گیا جبکہ وہ گھڑ سوار آگے اسٹیشن کے حالات کا جائزہ لینے کیئلے ایک طرف چل دیا۔

 

“حنیف جلدی کرو، جو بھی سامان مل رہا ہے اسے لو اور چلو، ہمیں نکلنا ہے۔” اس نقاب پوش نے کسان حنیف سے کہا جسے آج رات اپنے خاندان سمیت لاہور کی طرف ہجرت کرنا تھی۔ حنیف اپنے بیوی بچوں کو لئیے بیل گاڑی میں سوار ہو گیا جبکہ وہ نقاب پوش گھوڑے پہ سوار بیل گاڑی کے آگے چل دیا۔”جھاڑیوں میں چھپ جاؤ جلدی آگے خطرہ ہے۔” اس نقاب پوش نے دور سے گھوڑے کی ٹاپ سنتے انہیں ہدایت کی اور خود بھی دوسری طرف جھاڑیوں کی اوٹ میں ہوگیا۔ گھوڑوں کی ٹاپ قریب آرہی تھی وہ چوکنہ ہو گیا، جیسے ہی ٹاپ مزید قریب ہوئی اسے ایک مخصوص سیٹی سنائی دی۔ یہ آواز سنتے ہی وہ باہر آگیا۔

“اوہ خدایا تم ہو مجھے لگا شاید کوئی سکھ ادھر آبھٹکا”، اس نے آنے والے سے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔

“مجھے حرم نے تمہارے لئیے بھیجھا ہے، اتنی دیر کوں لگا دی ؟ آخری گاڑی روانہ ہونے میں کچھ ہی دیر باقی ہے”، اس نے کہا۔ “حنیف کا بچہ بیمار ہے اس لئیے دیر ہوگئی خیر چلو”، اس نے وجہ بتائی۔ بیل گاڑی بھی جھاڑیوں سے نکل آئی۔ وہ اسٹیشن کی جانب چل دئیے ایک گھڑ سوار بیل گاڑی کے آگے تھا اور دوسرا پیچھے۔ تھوڑی دور جاتے ہی وہ پہلے والے دونوں گھڑ سواروں سے جاملے۔”تم نے اتنی دیر کردی آنے میں حنان سب ٹھیک تھا؟” حرم نے اس سے پوچھا۔ “ہاں حنیف کا بچہ بیمار تھا۔” اس نے بتایا۔ “یہاں سب ٹھیک ہے؟” اس نے سوال کیا۔ “ابھی تک تو سب سہی ہے”، حرم نے جواب دیا۔ ریل چلنے کو تھی انہوں نے حنیف کے خاندان کو سوار کروایا اور ریل چل پڑی۔ ہزاروں لوگ اپنا سب کچھ چھوڑے لاہور روانہ ہوگئے۔

 

وہ چاروں گھڑ سوار آگے پیچھے گھوڑے دوڑاتے اپنے ٹھکانے کو جارہے تھے۔ وہ چاروں علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء تھے، جوکہ گورداسپور اور امرتسر سے تعلق رکھتے تھے۔ ان چاروں (حرم امیر، حارث تراب، مجید خان اور حنان حیدر) کے خاندان پہلے ہی پاکستان پہنچ چکے تھے۔ ان چاروں کے خیال میں یہاں کے لوگوں کو بحفاظت ریل تک پہنچانا ان کی زمہ داری تھی۔ وہ چاروں یہاں یہ عہد لئیے رک گئے۔ آزادی کے دن سے وہ چاروں اسی کام میں مصروف تھے۔

“امید ہے کہ کل رات چلنے والی ریل آخری ہو، تمام گھروں کو یا تو سکھ گروہوں نے جلا دیا یا لوگ ہجرت کر چکے ہیں اب بہت کم لوگ ہی بچے ہیں۔”حنان حیدر نے اپنے ساتھیوں کو آگاہ کیا۔

“کل رات تک انتظار کرتے ہیں، پھر رات کی آخری گاڑی میں ہم خود بھی ساتھ ہی سوار ہو جائیں گے۔”حرم بولا۔

  ▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

24 ستمبر 1947:                            

“ڈاکٹر صاحب کے خاندان کو آج دوپہر تک اسٹیشن لازمی پہنچانا ہے، ان کی ضد میں بہت انتظار کر لیا ہے اب اور نہیں۔”حنان نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔”تم جاؤ حارث انہیں نکلنے کا بول کر آؤ” اس نے حارث کو ہدایت دی تو وہ فوراً چلا گیا۔ حارث جیسے ہی ڈاکٹر کے گھر پہنچا وہاں خون کی ندیاں بہہ رہیں تھیں وہ الٹے قدموں واپس چلا گیا۔

اب وہ چاروں وہاں موجود تھے۔”اس خاندان پہ اتنی بڑی قیامت گزر گئی اور ہمیں پتا تک نہ چلا”، حنان نے وہاں دیکھتے بےیقینی سے کہا۔

“میں نے ڈاکٹر صاحب سے ان کی حفاظت کا وعدہ کیا تھا۔ میں نے وعدہ کیا تھا ان سے کہ میں ان کے خاندان کو بحفاظت پاکستان پہنچاؤں گا۔ میں نے حفاظت کا وعدہ کیا تھا۔ یہ کیا ہو گیا میرے خدا۔۔۔”اس گھر کا منظر اس سےدیکھا نہ گیا۔ وہاں 4 لاشیں پڑی تھیں، ایسا ظاہر ہو رہا تھا کہ انہیں تشدد کے بعد موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ ایسا منظر وہ پہلی بار نہیں دیکھ رہا تھا، لیکن ڈاکٹر صاحب سے اس کی کافی پرانی سلام دعا تھی وہ اسے ایک بڑے بھائی کی طرح عزیز تھے۔

 

وہ چاروں اب ان لاشوں کو لئے پاس بنے قبرستان میں موجود تھے۔                    

حنان حیدر ایک ایک کر کے انہیں منوں مٹی میں اتار رہا تھا۔                        

اب وہ آخری قبر پہ مٹی ڈال رہا تھا۔ آنسو اس کے گلے میں اٹک چکے تھے۔            

حرم کی امامت میں اب وہ نماز جنازہ پڑھ رہے تھے۔ کسی پیارے کو دفنانا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے نا۔۔۔۔۔                         

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

“حنان بیٹا اب آجاؤ نا میرا دل ڈوبتا ہے میرے لعل۔ اب آجا لوگوں کی مدد تو یہاں لاہور میں بھی تو کرسکتا ہے نا؟”، حنان حیدر پی۔سی۔او میں کھڑا دادی جی سے بات کرہا تھا۔

“بس دادی جی یہاں کام تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ سبھی لوگ ہجرت کر چکے ہیں اور جو نہیں کرسکے دادی جی میں نے ان کی لاشوں کو بے حرمت ہونے نہیں دیا”، اس نے ٹوٹے لہجے میں کہا۔ اس کی بات پر رخسانہ بیگم کا دل کٹ گیا۔ “میرے بیٹے وہ سب لوگ تیرے دادا کو بہت عزیز تھے۔ تم نے ان کا سر فخرسے بلند کیا بیٹے۔ مجھے فخر ہے تم پر”، وہ رو رہیں تھیں۔ وہ بول رہیں تھیں اور وہ سن رہا تھا۔ اس کے پاس بولنے کو کچھ نہ تھا۔

“حنان میرے بچے رعنا تمہارا انتظار کرتی ہے، وہ بولتی نہیں ہے لیکن میں تو ماں ہوں نا بچے۔ تم آج ہی لاہور آجاؤ بیٹا میرے دل میں عجب وسوسے آتے ہیں”،انہوں نے پوتے کو یاد دہانی کروائی۔

“دادی جی برے خیالات جھٹک دیا کریں۔ اور ہم کل صبح تک لاہور پہنچ جائیں گے۔ اب میں رکھتا ہوں “،اس نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا۔ بس وہ آخری جائزہ لے گا گاؤں کا۔ کوئی رہ تو نہیں گیا جس کی مدد وہ کر سکے۔ پھر وہ لوگ بھی لاہور چلے جائیں گے، اس نے سوچا۔ وہاں سے پیغام آیا تھا، وہاں مہاجر کیمپوں میں رضاکاروں کی ضرورت تھی۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

“آج رات 8 بج کر 45 منٹ پر آج کی آخری گاڑی لاہور کیلیئے روانہ ہوگی۔ ہمیں اسی پر جانا ہے۔ وہاں لاہور اسٹیشن پر ایک اہلکار ہمارا انتظار کر رہا ہوگا۔ ادھر پہنچتے ہی میں اور مجید ریفیوجی کیمپ چلے جائیں گے اس کے ساتھ۔ حنان اور حارث تم دونوں اپنے گھر چلے جانا اور پھر 26 ستمبر کی صبح ہمیں وہیں ملنا”، حرم نے آگے کا لائحہ عمل ترتیب دیا۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

گلابی رنگ کا لباس پہنے وہ نماز کے بعد مصلے پر بیٹھی دعا مانگ رہی تھی۔ وہ حنان حیدر کی لمبی زنگی کی دعا مانگ رہی تھی۔”اے اللہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں انہیں اپنی حفاظت میں رکھنا۔ انہیں سہی سلامت یہاں لے آ میرے مالک” وہ دعا مانگ کہ جائے نماز کا کونہ موڑے اٹھ گئی، جبھی ارم کمرے میں داخل ہوئی۔

“ارم نا جانے تمہارے بھائی جان کیسے ہونگے، مجھے بڑی فکر ہو رہی ہے” اس نے ارم کے پاس بیٹھ کر اپنا

خدشہ ظاہر کیا۔ “اللہ پر بھروسہ رکھیں رعنا۔ بھائی جان بلکل ٹھیک ہیں اور وہ کل صبح تک یہاں موجود ہونگے”، ارم نے اسے خوشی کی خبر سنائی۔

 “اچھا میرے پاس ایک اور خبر بھی ہے،”اس نے رازداری سے کہا۔

وہ کیا بھلا؟؟ رعنا حیران ہوئی۔

“خبر کے بدلے مجھے کیا ملے گا”، ارم نے مطالبہ کیا۔

“میں تمہیں آج رات کو حلوہ بنا کے دوں گی۔” اس نے مطالبہ منظور کیا۔

“دادی جی بھائی کو کہہ رہی تھیں کہ وہ آجائیں اور جمعے کو آپ دونوں کا نکاح ہوگا”، اس نے خبر سنائی اود رعنا کو گلے سے لگا لیا۔۔۔۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

 8:40 ہو چکے تھے۔ وہ چاروں ریل میں سوار ہو گئے۔ اس ریل میں ہزاروں مسلمان اپنا گھر بار چھوڑے ہجرت کر رہے تھے۔

رعنا، دادی جی، امی، ارم سب اس کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ جب وہاں پہنچ جائے گا تو سب کتنے خوش ہونگے، اس نے دل ہی دل میں سوچا۔

“یار ہم لاہور کس وقت تک پہنچ جائیں گے؟” حارث نے ان تینوں سے پوچھا۔

“بھائی تم صبر کرلو تھوڑا پہنچ جائیں گے صبح سے پہلے ہی۔”مجید نے اسے جھڑکا۔

ریل اپنی منزل کی جانب چل پڑی تھی ۔

وہ چاروں ہلکی پھلکی باتیں کررہے تھے۔

“حنان تمہارے نکاح پر میں سفید شیروانی پہنوں گا”، حارث بولا۔

“بھائی نکاح تیرا ہے یا حنان کا؟” مجید نے طنز کیا۔

“کوئی نہیں مجھے نہیں فرق پڑتا، بولتا رہ جو بولنا ہے” اس نے قدرے خفگی سے کہا۔

ایسے ہی ہنسی مزاح میں سفر کٹ رہا تھا۔

 

ریل امرتسر سے تیس میل کا فاصلہ طے کر چکی تھی، کہ اچانک ہی ریل رک گئی۔ سکھوں کے کئی مصلحہ جتھے اچانک ہی ریل پر حملہ آور ہوئے۔ انہوں نے پوری گاڑی میں خون کا سیلاب بہا دیا۔ وہ ہر ایک کو برچھیوں اور کرپانوں سے بےدردی سے قتل کئے جارہے تھے۔

“حارث اور حرم تم دونوں پچھلی طرف جاؤ اور مجید تم میرے ساتھ رہو”،حنان نے ان کو ہدایت دی۔ وہ چاروں لڑنا جانتے تھے اور اب اپنا اپنا خنجر سنبھالے مقابلے کو تیار تھے۔

حنان سکھوں سے مقابلہ کر رہا تھا جبکہ مجید عورتوں اور بچوں کو دوسرے ڈبے میں پہنچا رہا تھا۔ سکھ تعداد میں بہت زیادہ تھے جبکہ مسلمان جو لڑنا جانتے تھے بہت کم۔

“مجھے ہاتھ دو اپنا جلدی، شاباش رونا نہیں” حنان حیدر ایک سیٹ کے نیچے پھنسے تین سال کے بچے کو کہہ رہا تھا۔ وہ اسے وہاں سے نکال رہا تھا کہ اچانک ہی پیچھے سے ایک سکھ نے اپنی کرپان سے اس پر حملہ کیا۔ درد کی لہر اتنی شدید تھی کہ ایک لمحے کو اپنے خنجر پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑی۔ وہ پیچھے مڑا اور جوابی وار کیا لیکن اس کا نشانہ چوک گیا۔ وہ بچہ اب بھی رو رہا تھا۔ اس سکھ نے سیدھا اس کے دل پر وار کیا۔ اس نے اپنی تمام تر ہمت جمع کر کے اس کی شاہرگ پر حملہ کیا، وہ سکھ گر گیا ۔۔۔۔

 

لیکن اس کے ساتھ ہی حنان حیدر بھی گر گیا۔ اس کا سانس بہت تیز چل رہا تھا۔

“رعنا اس کا انتظار کر رہی تھی”، دادی جی کے الفاظ اس کے ذہن میں گونجے۔ اس کےلیئے سانس لینا دو بھر ہو گیا۔ اسے عورتوں اور بچوں کے چیخنے کی آوازیں آرہی تھیں، وہاں قیامت کا سا سماں تھا۔ حنان حیدر نے با آواز بلند کلمہ شہادت پڑھا۔ اس نے اپنے لوگوں کی خاطر اپنی جان دے دی تھی۔ وہ اپنے ابدی سفر پر روانہ ہوچکا تھا۔

 وہاں کوئی اور بھی تھا جو کلمہ شہادت پڑھ رہا تھا، اس کا منہ بری طرح مسخ تھا، کوئی شاید ہی پہچان پائے کہ وہ حارث تراب تھا۔ وہ بالکل ساکت تھا۔

ریل کے پچھلے حصے میں حرم امیر تین چار سکھوں سے اکیلے زخمی حالت میں لڑ رہا تھا۔ وہاں کوئی مرد نہ بچا تھا۔ اس نے ایک کو موت کے گھاٹ اتارا لیکن وہ زیادہ دیر ان کے سامنے ٹھہر نہ سکا۔ ایک اور قیمتی جان حق کی راہ میں جا چکی تھی۔

وہاں برپا قیامت اب تھم چکی تھی۔ ظالم اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے تھے۔ مجید کا کچھ پتا نہ تھا۔ بچے چیخ رہے تھے۔ جن کے جان سے پیارے ظلم کی بھینٹ چڑھے تھے وہ ماتم کر رہے تھے۔

 

وہ زندگی سے بھرپور ریل قبرستان کا منظر پیش کر رہی تھی۔ تین ہزار لوگوں نے آزادی کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ اسی آہ و پکار میں اگلے دن کا سورج بھی طلوع ہو گیا۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

حیدر اسغر لاہور اسٹیشن پر موجود پچھلے کئی گھنٹوں سے حنان کا انتظار کر رہے تھے لیکن ریل آ کے ہی نہیں دے رہی تھے۔ وہ انتظار کرتے ادھر ادھر ٹہل رہے تھے جب اسٹیشن ماسٹر سے انہوں نے ریل کے آنے کی بابت دریافت کیا۔ “جناب جو ریل کل رات کو امرتسر سے روانہ ہوئی تھی وہ ابھی تک پہنچی کیوں نہیں؟”۔

“بھائی جان! اس ریل پر کل رات امرتسر سے کچھ فاصلے پر سکھ جتھوں نے حملہ کردیا تھا”،اسٹیشن ماسٹر نے بتایا۔

“تمام لوگوں کو مار دیا ظالموں نے۔ بمشکل سو لوگ ہی بچے ہیں جی۔ ان کے ناموں کی پٹی ادھر لگا دی ہے۔ باقیوں کی نماز جنازہ کل ادا کر دی جائے گی”، اسٹیشن ماسٹر ساری بات بتا کر آگے بڑھ گئے انہیں سب لوگوں کو آگاہ کرنا تھا۔ حیدر اسغر بے اختیار ہی اس پٹی کی جانب بھاگھے جہاں بچ جانے والے لوگوں کے نام آویزاں تھے۔ ان کے دل سے بڑی شدت سے حنان کا نام وہاں موجود ہونے کی دعا نکلی۔

انہوں نے بیسیوں دفعہ اس پٹی کو شروع سے لیکر آخر تک پڑھ لیا، لیکن ان کے جگر کے ٹکڑے کا نام وہاں موجود نہ تھا۔ وہ زمین پر گر گئے تھے۔ ان کے لاڈلے نے اپنے ملک کیلئے اپنے لوگوں کیلئے جان دے دی تھی ۔ ان کا دل پھٹ رہا تھا۔ وہ اس کے انتظار میں بیٹھی اس کی ماں بہن اس کی منگیتر کو کیا جواب دیں گے۔

وہ رو رہے تھے بہت شدت سے ان کی دنیا اجڑ چکی تھی۔۔۔۔۔

“ابو، آپ رو رہے ہیں؟ آپ کو تو مجھ پر فخر ہونا چاہیئے ابو میں نے لڑتے ہوئے اپنی جان دی۔ میں بزدلوں کی طرح پیچھے نہیں ہٹا ابو ۔۔” سفید لباس پہنے حنان ان سے مخاطب تھا۔

“میرے بچے!!  میرے لعل” وہ اس کی جانب بڑھے لیکن وہ اب وہاں موجود نہ تھا۔ وہ جا چکا تھا، دور بہت دور۔۔۔

اس نے اپنی مٹی کا قرض چکا دیا تھا۔

▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎

یہ وطن جس میں آج ہم آزادی سے جی رہے ہیں۔ جسے ہم بڑے فخر سے اپنا ملک کہتے ہیں اس کے حصول کیلیئے لاکھوں لوگوں نے اپنی جان کا نذرانہ دیا ہے۔ اس وطن کی بنیادوں کو شہیدوں کے خون سے سینچا گیا ہے۔ قرض خاک ہے ہم سب پہ جسے تا قیامت یوں ہی چکاتے رہنا ہے۔

 

لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے  

اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی

Welcome to Urdu Novels Universe, the ultimate destination for avid readers and talented authors. Immerse yourself in a captivating world of Urdu literature as you explore an extensive collection of novels crafted by creative minds. Whether you’re seeking romance, mystery, or adventure, our platform offers a wide range of genres to satisfy your literary cravings.

Authors, share your literary masterpieces with our passionate community by submitting your novels. We warmly invite you to submit your work to us via email at urdunovelsuniverse@gmail.com. Our dedicated team of literary enthusiasts will review your submissions and showcase selected novels on our platform, providing you with a platform to reach a wider audience.

For any inquiries or feedback, please visit our Contact Us page here. Embark on a literary adventure with Urdu Novels Universe and discover the beauty of Urdu storytelling

Writer's other novels:


5 Comments

jalal ahmed · August 14, 2023 at 9:10 am

this is a great novel best of What I’ve read in my entire life , amazing work by samavia khan , keep it up thanks for this amazing novel having such amount of knowledge

Miru · August 16, 2023 at 11:29 am

I like this novel osm

Armish · August 16, 2023 at 4:25 pm

Novels are such a blessing to read and a good writer makes them more interesting for readers to read you are so talented ma sha Allah writing and publishing a novel at such young age is literally a very big thing to do I have also read your previous novel and I am in love with both of them your writing skills are just so good the whole page layout is beautiful keep it up don’t let us down just continue making us all proud we all are there for you whenever you need us💓

Armisheman5 · August 16, 2023 at 4:26 pm

Novels are such a blessing to read and a good writer makes them more interesting for readers to read you are so talented ma sha Allah writing and publishing a novel at such young age is literally a very big thing to do I have also read your previous novel and I am in love with both of them your writing skills are just so good the whole page layout is beautiful keep it up don’t let us down just continue making us all proud we all are there for you whenever you need us💓

Areej khan · August 19, 2023 at 2:14 pm

Awesome story.. characters were strong.. so much info and i like the way story was in pace with the chain of historic events.. keep up the brilliant work 👏🏼

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *