Urdu Novels Universe

A Universe of Endless Stories Awaits You

yh kahani hy pakistan k Naam, aik esi dastan jis mn hijrat krny walon ki aziyaton Awr takleefon ka zikr hy. hmari hr kahani Pakistan k Naam, hmari hr dastaan, qlm sy nikla lfz or honton se nikli awaaz, pyary mulk Pakistan k Naam.

Read Online

 

آج 14اگست کا دن تھا اور یہ منظر ہے “حسنی ویلا” کا جہاں سب بھائیوں کی فیملیز اکٹھی ہوئی ہوئیں تھیں۔ سب کزنز سفید اور ہرے رنگ کے کپڑے پہنے یہاں وہاں گھوم رہےتھے۔ لڑکے سفید رنگ کی شلوار قمیض کے ساتھ سبز رنگ کی واسکٹ پہنے ہوئے تھے جبکہ لڑکیاں سفید شلوار قمیض کے ساتھ سبز رنگ کے حجاب لیے ہوئے تھیں۔ اور ان کے یہاں تو 14 اگست ایسے ہی منائی جاتی تھی جیسے کہ عید ہو۔ کیوں کہ یہ دن مسلمانوں کے لیے عید سے کم تو ہے نہیں۔ وہ سب ابھی اپنی اپنی پرفارمینس دے چکے تھے جن کی تیاری ان کے گھر میں آدھا مہینہ پہلے سے شروع کر دی گئی تھی۔ وہ سارے بچے گھر میں ایک ایسا فنکشن کرتے تھے جیسا کہ کوئی سکول یا کالج میں ہوتا ہے۔ اب باری تھی دادی جان (ان کے دادا جی کی پھپھو) جن کو وہ سب بچے پھپھو ہی کہتے تھے، ان کی کہانی کی۔ وہ ہر سال اس موقع پر ایک نئی کہانی سناتی تھیں۔ بچے پورا سال اس دن کا انتظار کرتے تھے۔ اب بھی تمام بچے بیٹھک میں پھپھو کے گرد گول دائرہ بنائے بیٹھے تھے۔ اور سب کی نظریں ان کی طرف ہی لگی ہوئی تھیں۔ اور صرف بچے ہی نہیں تمام بڑے بھی کہانی سننے کو وہاں موجود تھے۔ انہوں نے بولنا شروع کیا

بھلے وقتوں کی بات ہے کہ جب برصغیر میں انگریز نہیں آیا تھا۔ عبد الرحمٰن تہجد پڑھ کے اپنے گھر سے نکلا اور اپنے ہمسائے جگندھر لال اور اس کے ساتھ ہی نرندر سنگھ کو آواز دے کر بلایا۔ اور پھر وہ تینوں (ایک مسلمان،ایک ہندو اورایک سکھ) مل کر اپنی فصلوں کو پانی لگانے چلے گئے۔ اسی طرح ہنسی خوشی دن گزر رہے تھے کہ وہاں انگریزوں نے آ کر فسادات شروع کر دیے۔ انگریزوں کے جانے کے بعد یہ حال ہو چکا تھا کہ ہندو لوگ جو گائے ماتا کے گوبر اور پیشاب مٹی میں ملا کر اپنے گھروں کے باہر لیپ کرتے تھے اگر کوئی مسلمان وہاں سے گزر جائے اور اس کا ہاتھ اس پر لگ جائے تو وہ سمجھتے تھے کہ وہ بھرشٹ ہو گیا ہے اور اس پر پھر سے لیپ کر دیتے۔ یعنی انگریز ان کے درمیان نفرت پھیلانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ وہی ہندو، سکھ اور مسلمان جو روزانہ اکٹھے فصلوں کو پانی لگاتے تھے آج اگر عبد الرحمٰن دوستی کا حق جتانے کے لیے بھی ان کے کھانے پر ہاتھ لگا دیتا تو وہ پوری کی پوری ٹوکری وہیں رکھ دیتے کہ یہ تم نے بھرشٹ (ناپاک)کر دی ہے لو تم ہی کھاؤ۔ اس سے مسلمانوں کے راہنماؤں نے دو قومی نظریے کو اجاگر کیا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں۔ یہ دونوں قومیں صدیوں ساتھ رہنے کے باوجود بھی ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل نہ سکیں۔ اس لیے مسلمانوں کے پاس اپنا علیحدہ وطن ہونا چاہیے ۔ جہاں وہ آزادی سے ری سکیں اور جہاں ان کی چھوئی ہوئی چیز بھرشٹ نہ کہلائے۔ جہاں ان کو مذہبی آزادی حاصل ہو۔

سب ایسا ہی چل رہا تھا کہ قائدِاعظم اور ان کے ساتھیوں کی انتھک کوششوں سے پاکستان وجود میں آگیا۔ جو ہندو یا سکھ پاکستان میں تھے وہ بھارت جا رہے تھے اور وہاں سے مسلمان پاکستان آرہے تھے۔ اسی دوران کسی نے یہ جھوٹی خبر پھیلا دی کہ مسلمانوں نے پاکستان سے بھارت آنے والے سکھوں کا قتل و غارت شروع کر دیا ہے۔ سکھ یہ خبر سن کر مشتعل ہو گئے کیونکہ ان کی مسلمانوں کے ساتھ کوئی دشمنی نہ تھی۔ لہٰذا انہوں نے بھی بھارت سے پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ انہی لوگوں میں چالیس پچاس افراد کا ایک گروہ بھی تھا جو ایک ہی خاندان کے تھے۔ یہ لوگ جالندھر کے ایک شہر لورا سے ہجرت کر کے پاکستان جا رہے تھے۔ ان کے مقامی سکھوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات قائم تھے کہ اسی دوران جب ہر طرف خون آلود تلواروں کی چھنکاریں اور فضا میں گولیوں کی تڑتڑاہت تھی،21 اگست1947 کو کماد(گنّا) کی فصل میں ان کے ہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی۔ اور اسی مناسبت سے اس بچے کا نام “کماد علی” رکھ دیا گیا۔ انہی مقامی سکھوں نے کماد کی فصل پر پہرا دینا شروع کر دیا۔ سب سمجھتے رہے کہ شاید یہ اس لیے پہرا دے رہے ہیں تاکہ کوئی مسلمان اس طرف نہ آسکے جبکہ اصل میں تو وہ اس بچے اور اس کے خاندان کی حفاظت کر رہے تھے۔ اور پھر ایک دن سکھوں کا ایک بہت بڑا اور سردار وہاں آیا کیوں کہ ان کو شک ہو چکا تھا کہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔ وہ کماد کی فصل کو اندر سے دیکھنا چاہتا تھا۔ اب وہ بیچارے سکھ کیا کرتے۔ انہوں نے ان کو اندر جانے دے دیا۔ اندر جا کر اسے پتا چلا کہ یہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی ہے۔ تو وہ اس بچے کو دیکھنے کا کہنے لگا۔ انہوں نے بچہ دکھایا تو کہنے لگا کہ آپ کی جان بچ سکتی ہے بشرطیکہ وہ اس بچے کو ان کے حوالے کریں تاکہ وہ اپنے روایتی طریقے سے اس کی پرسات بانٹ سکیں۔ وہ بیچارے مرتے کیا نہ کرتے۔ یہی طے پایا کہ تمام مرد بچے کے ساتھ جائیں گے اور 4 سال کی بچی سے لے کر 50 سالہ بوڑھی عورت تمام خواتین کو کنویں کی منڈیر پر بٹھا دیا۔ کہ اگر وہاں قتل و غارت شروع ہو جائے اور کوئی تمہارے نزدیک بھی آنے کی کوشش کرے تو اس کنویں میں چھلانگ لگا دینا مگر ان کے ہاتھ مت لگنا۔ سب اس بچے کو لے کر چلے گئے مگر اس سکھ سردار نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ انہوں نے اپنے روایتی انداز میں بچے کی پرسات بانٹی اور بچے کو اپنا گرو اور دیوتا بنا لیا۔ اور اپنے روایتی انداز میں اسے پرنام کیا۔ اس دوران کماد علی کی بڑی بہن جو کہ محض چار سال کی تھیں ان تمام فسادات اور قتل و غارت سے بے نیاز وہاں کا ایک مقامی گیت “دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے کوئی اِدھر گرا، کوئی اُدھر”گانے میں مصروف تھی۔ اس کے بعد جتنے دن وہ وہاں رہے ان کو رہائش اور خوراک وہی سکھ فراہم کرتے رہے۔ 

اور پھر وہ پاکستان آگئے۔ یہاں آکر پہلے وہ محاجر کیمپوں میں رہے اور اس کے بعد اپنے رشتے داروں کو ڈھونڈنے ان کے پاس پہنچے اور پھر اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچ گئے۔ اس بچے (کماد علی)کی وجہ سےان کے پورے خاندان کی جانیں بچ گئیں۔ 

اب پاکستان کو بنے چھہتر (76) برس بیت چکے ہیں مگر ان کے تعلقات آج بھی ان سکھوں کے ساتھ ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ آج بھی وہ ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں اور ایک دوسرے کی بہت عزت کرتے ہیں ۔” 

ان کی بات ختم ہوچکی تھی مگر بچوں کا اشتیاق ختم نہ ہوا تھا۔ اور اب سوالوں کی بوچھاڑ آنے والی تھی۔ ہر بچے کے دماغ میں کوئی نہ کوئی سوال ضرور تھا۔ اسی طرح شام سے رات ہو گئی۔ اور اب محفل تقریباً ختم ہو چکی تھی کہ منتہا نے یہ کہہ کر کہ “ہمیں ہر کسی کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے چاہئیں ۔ کیوں کہ یہ کہیں نہ کہیں کام ضرور آتے ہیں” بات ہی ختم کر دی۔ اس کے بعد سب بچوں نے اپنے ملک کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کا وعدہ اور پکا عزم کیا۔ پھر ان کی ایک کزن نے ایک شعر سنایا :

اے وطن ہم سے لے لے تُو جو لینا چاہے،

یہ سر ہے، یہ دھڑ ہے تُو جو لینا چاہے۔

یہ بازو ، یہ تیشہ تُو جو لینا چاہے،

یہ مٹی ، یہ گیہوں تُو جو لینا چاہے۔

فقط اس کے بدلے تُو خود کو بچا لے۔

وطن اپنے باہر فصیلیں بنا لے،

ان فصیلوں کی بنیاد ہم پر اٹھا لے،

وطن ہم سے لے لے، تو جو لینا چاہے۔

اس کے بعد سب نے مل کر رات کھانا کھایا اور اس طرح اس دن کو بخوشی رخصت کیا۔ اس کے بعد سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ 

°°°°°°°°°°°°°°°°

آج ہم بھی وعدہ کرتے ہیں کہ ہم بھی اپنے وطن کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے اور ضرورت پڑنے پر اپنے وطن کے لیے جان دینے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ آئیے میرے ساتھ وعدہ کریں:

اے روحِ قائد!آج کے دن 

ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں

مٹی سے ہے سچا پیار ہمیں

اس پیار کے رنگ ابھاریں گے

ہم خونِ رگِ جاں بھی دےکر

موسم کا قرض اتاریں گے

ڈالیں گے فضا میں وہ جذبے 

کاغذ پر جو لکھا کرتے ہیں

اے روحِ قائد آج کے دن

ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں

اے روحِ قائد آج کے دن 

ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں

°°°°°°°°°

 

ختم شد

Welcome to Urdu Novels Universe, the ultimate destination for avid readers and talented authors. Immerse yourself in a captivating world of Urdu literature as you explore an extensive collection of novels crafted by creative minds. Whether you’re seeking romance, mystery, or adventure, our platform offers a wide range of genres to satisfy your literary cravings.

Authors, share your literary masterpieces with our passionate community by submitting your novels. We warmly invite you to submit your work to us via email at urdunovelsuniverse@gmail.com. Our dedicated team of literary enthusiasts will review your submissions and showcase selected novels on our platform, providing you with a platform to reach a wider audience.

For any inquiries or feedback, please visit our Contact Us page here. Embark on a literary adventure with Urdu Novels Universe and discover the beauty of Urdu storytelling

Writer's other novels:


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *