یہ افسانہ جس میں ایک بوڑھے انسان کے غم اور اس کی ملک کے بارے میں سوچ کی عکاسی کی گئی ہے
Read Online
ایوب کے سامنے کھلی ڈائری پر قلم یوں پڑا تھا جیسے ہاتھوں کے آگے بڑھنے کا منتظر ہو کہ وہ اسے تھامیں اور اس کی نوک سے نکلتی سیاہی حرفوں میں ڈھل کر بامعنی ہو جائے مگر وہ دونوں ہاتھ ڈائری کے دونوں اطراف میں میز پر دھرے ہوئے تھے اور نگاہیں شیشے والی کھڑکی سے باہر تھیں۔ رائیٹنگ ٹیبل کی حد جس دیوار سے لگ کر ختم ہوتی تھی، اسی دیوار کے وسط میں وہ کھڑکی تھی جس کے شیشے کے پٹ بند تھے مگر اس کے پار وسیع دالان اور وہاں پہ نسبتاً ذرا بلندی پہ لگایا سبز جھنڈا نظر آتا تھا، جو تہائی رات کے اس وقت چلتی ٹھنڈی میٹھی ہوا کے باعث لہرا رہا تھا۔ وہ تہجد کے وقت جاگنے کے پابند تھے۔ اور اب آدھی رات کی محبت والی نماز کو ادا کر کے وہ فرض کے لیے بلند ہوتی صدا کے منتظر تھے۔ ہر رات، دونوں کی ادائیگی کے درمیان، وہ اپنی تیس سالہ پرانی رائیٹنگ ٹیبل پہ آ بیٹھتے تھے۔ جہاں وہ ہوتے تھے، ان کا قلم ہوتا تھا اور دن بھر کی روداد، بڑھتی ہوئی عمر، بڑھتے ہوئے تجربے اور بڑھتی ہوئی فراغت کی وجہ سے اب ان کی ڈائری کے صفحات روداد کو کم اور فلسفوں کو زیادہ سنبھال لیتے تھے۔ ریٹائیرڈ سرکاری ملازم، ایوب جواد نے اب جھنڈے سے نظر ہٹائی اور کورے کاغذ پہ جمائی، سیدھے ہاتھ میں قلم تھاما اور ڈائیری پہ اس دن کی تاریخ لکھی
“13 اگست، 2003”
یہ پرانی عادت تھی، ان پرانے لوگوں کی جن کی آب بیتیوں میں تاریخیں بڑی اہم ہوتی تھیں۔ جس عادت کو آج کی نفسیات کے ماہر لوگ، جرنلنگ (journaling) کا نام دے کر ان لوگوں کا علاج بتاتے تھے، جن کے خیالات انہیں مارنے پہ تل جاتے ہیں، اس عادت کو ادب سے وابستہ لوگ ماضی میں اپنی روزمرہ کی زندگی کا حصہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے آگے لکھا
“اس سال 2003 میں، پاکستان 56 سال کا اور میں 68 سال کا ہو گیا ہوں، میں تو انسان ہوں، بوڑھا ہو گیا ہوں، مزید کمزور ہوتا ہوتا ایک دن ختم ہو جاؤں گا۔ پاکستان کو مگر جوان دیکھنے کی آرزو میں ہی رہتا ہوں۔ کل 14 اگست ہے، سالگرہ، پاکستان کی۔۔۔۔آج میں سوچ رہا تھا کہ انسان اپنی جوانی زمین کو دے کر بوڑھے ہو جاتے ہیں، تا کہ اس زمین پہ بڑھاپا نا آنے پائے۔ ہم پیدا ہوتے ہیں۔ جس زمین پہ آنکھ کھولتے ہیں، وہاں کی مٹی سے ہمارے جسم کی نشوونما ہوتی ہے۔ مٹی سے رزق آتا ہے، وجود کی طاقت بنتا ہے، اور وجود کی طاقت محنت میں ڈھل کر مٹی کو اس کا رزق مشقت کر کہ واپس لوٹا دیتی ہے۔ یہی رشتہ ہے خدا کی بنائی ہوئی مٹی اور خدا کے بنائے انسانوں کے درمیان۔ مٹی، جس سے ہم بنتے ہیں۔ ہم، جس سے مٹی کو زندگی ملتی ہے۔ دونوں ہی کام اللّٰہ کے حکم سے ہوتے ہیں۔ خیر! میں بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گیا ہوں۔ بات کرتا کرتا کہیں کا کہیں نکل جاتا ہوں۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ سب کی زبانوں سے اس ماہ کا آغاز ہوتے ہی سن رہا ہوں کہ یومِ آزادی آنے والا ہے۔ سوچ رہا ہوں یوم آزادی کیا ہے؟ جس دن ہم آزاد ہونے تھے؟ میرا دل یونہی پوچھ رہا تھا کہ آزاد تو ہم اسی دن ہو جاتے ہیں جس دن ہمارے جسم میں روح آجاتی ہے۔ کیونکہ خدا نے ہم سب کو آزاد پیدا کیا ہے نا۔ ہماری زندگی اللّٰہ نے چند حدود کے اندر رکھی ہے مگر قید نہیں کیا ہمیں، اس نے تو ہمیں آزاد پیدا کیا پھر آزاد ہونے کے بعد کون سی آزادی؟ ہاں باقی بھی ٹھیک کہتے ہیں، وہ آزادی جو دنیا ہم سے چھین لیتی ہے۔ ہم مسلمان تو پیدائشی آزاد ہوتے ہیں، بھلا یہ ہندو، انگریز، سکھ ہمیں کیسے غلام بنا سکتے ہیں؟ جبھی پیدائشی آزادی کو واپس لینے کے لیے جدو جہد کرنی پڑی تھی۔ سو اسی جدو جہد کے حسین نتیجے کا شکر ادا کرنے کے لیے اہتمام ہو رہے ہیں میرے ملک میں۔ میں بھی شکر ادا کر لیتا ہوں۔ شکر تو میں ادا کرتا ہی ہوں مگر بعض اوقات مجھے لگتا ہے کہ میں ناشکری کر جاتا ہوں۔ اب تم ہی بتاؤ میرے قلم۔۔! یہ کمال جو ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کے بعد ہمارے بچوں کو حاصل ہوا ہے، اس نعمت کے زوال کا خوف مجھے پریشان کرے تو کیا میں ناشکرا ہوں؟ آہ۔۔۔۔ خیر میں نے سوچا ہے کہ میں کل ایسی باتیں نہیں کروں گا کسی سے، سب اکتا جائیں گے نا۔ تمہیں پتا ہے آج مجھے میری گزشتہ زندگی یاد آرہی ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ اپنی زندگی کا 69واں سال میں دیکھ ہی نا سکوں گا۔ مجھے اپنا ہندوستان والا گھر یاد آرہا ہے۔ جہاں آس پاس قرابت دار اور کئی غیر مسلم عزیز تھے۔ایک دوسرے کے ساتھ کھیلنا کودنا، دلیپ چاچا کی بیٹیوں کا میری آپا کی وجہ سے ہمارے گھر آنا تو میرا ان کو بہن سمجھ کہ ستانا۔ دلیپ چچا، پڑھے لکھے تھے لیکن عجیب شرمندہ سے رہتے تھے، بیٹیاں ہی بیٹیاں جو تھیں ان کی، بے زار ہی رہتے تھے ، اچھے آدمی تھے مگر پتا نہیں کیوں ہمارا خون بہایا تھا انہوں نے۔۔۔ ان کے آنگن میں تو اکثر ہی پتھر مارتا تھا میں۔ امبیوں کے درخت جو میری جان تھے۔ شرارتی بہت ہوا کرتا تھا میں مگر اماں کہتی تھیں کہ میرا یہ پتر بڑا ہی سمجھ دار ہے، ہوشیار ہے۔ اللّٰہ جانے پھر کیوں میں اماں ابا کو بچا نہیں سکا۔ نیزے، بھالے، چاقو۔۔۔۔ کئی سال تک میں راتیں کھلی آنکھوں کے ساتھ ہی کاٹتا رہا تھا۔ احسن کہتا ہے ابا اب آپ یہ باتیں مت یاد کیا کریں، نا تذکرہ کیا کریں۔ دکھ ہوگا آپ کو۔ تذکرہ نا کرو تو دکھ نہیں ہوتا کیا؟ شاید نہیں ہوتا ہوگا مگر میں ضدی ہوں نا، ان کو کچھ نہیں بتاتا تو لکھنے بیٹھ جاتا ہوں۔ لکھنے بیٹھتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے روز یاد کرتا ہوں سب کو۔”
انہوں نے ذرا رک کر پھر کھڑکی سے باہر دیکھا۔ ہوا تیز ہو گئی تھی۔ یوں تو فرش صاف ہی تھا مگر دالان میں دو چار کاغذ فرش پہ یوں ادھر ادھر ہونے لگے جیسے ہوا ان سے کھیل رہی ہو۔ ان کاغذوں کو وہ پہچانتے تھے۔ روز شام کو وہیں دالان میں بیٹھ کر ان کا پوتا ان کی نقل میں پینسل اور کاغذ لے کر بیٹھ جاتا تھا۔ وہ کاغذ پہ ٹوٹی پھوٹی لکیریں بھی بناتا تو وہ سنبھال لیتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ انہوں نے سنبھالنا چھوڑ دیا۔ اب وہ صرف وہی کاغذ سنبھالتے تھے جس میں وہ کوئی نیا حرف لکھتا تھا۔ لکیریں بہت جمع کر لی تھیں انہوں نے،اب لفظ جمع کرنا چاہتے تھے۔ وہ مسکرا کر دوبارہ لکھنے لگے
“احسن کا بیٹا ہے نا، میری طرح ہی ہے۔ شاید اسی لیے بہت ہی پیارا ہے مجھے وہ۔ ہم انسانوں کو اپنی طرح کے لوگ ہی کیوں پسند آتے ہیں۔ بڑے ہی خود پسند ہیں ہم۔ ابھی ذہن میں یوم آزادی کا قصہ چل رہا تھا۔ اب احسن کا بھی خیال آگیا ہے۔ خیال کیا آیا ہے، یہ سمجھو کہ اس کا کوفت زدہ چہرہ ہی نگاہوں کے آگے آگیا ہے۔ بد مزاج نہیں ہے وہ۔ بس اکتا گیا ہے ملک کے حالات سے۔ سرکاری نوکری نہیں ملتی نا اسے۔ کسی پرائیویٹ سیکٹر میں لگا ہوا ہے۔ بس پریشان ہی رہتا ہے۔ خدا سے شکوہ کناں نظر آتا ہے”
انہوں نے اب گردن گھما کر بستر کے دائیں جانب رخ موڑ کر لیٹی ہوئیں اپنی بیگم، ثمینہ ایوب کو دیکھا۔ پھر نیم اندھیرے میں ڈوبی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھا جو بتا رہی تھی کہ فجر کا وقت ہونے والا ہے، یہی کوئی 20 منٹ رہ گئے ہیں۔ ان بیس منٹوں میں کیا کرنا تھا انہوں نے؟ وہی جو وہ کررہے تھے، سو دوبارہ لکھنے لگے۔
” ایسے تھک ہار کر سوتی ہے نا بے چاری کہ ترس ہی آ جاتا ہے۔ اللّٰہ جانے اب تھک کہ سوتی ہے کہ مستقبل سے ڈر کے ۔ ڈر تو اب میں بھی جاتا ہوں۔ آج عائشہ کی شادی کی یادوں کو آگ لگائی تھی میں نے، اب ہوا چل رہی ہے باہر، چلو اچھا ہے اس کی راکھ بھی اڑا کر لے جائے گی۔ سوچتا ہوں کتنی باتیں سننی پڑی تھیں مجھے اس کی شادی پہ خاندان والوں سے۔ کہتے تھے ایوب نرالا ہی ہے، الگ ہی مسلمان بنا پھرتا ہے۔ میں نے بھلا کب روکا تھا خوشی منانے سے؟ نا سنگھار کی ممانعت، نا خاندان کے اکھٹا ہونے کا کوئی مسئلہ، کیسے ساری ساری رات بچیاں مل کر عائشہ کے لیے گیت گاتی تھیں۔ موسیقی اور اسراف سے منہ موڑا تھا میں نے بس۔ سب نے قدامت پسند کہا اور نا جانے کیا کیا، عائشہ مگر اپنے نکاح سے ایک رات پہلے آئی تھی میرے پاس۔ بولی تھی کہ میں نے باپ ہونے کا حق ادا کر دیا۔ وہ مجھے سمجھتی ہے۔ میری بیٹی ہے نا۔ اب سوچتا ہوں کہ کتنا مطمئین تھا میں اس کے نکاح کے وقت۔ لگتا تھا کہ واقعی باپ ہونے کا حق ادا کر دیا ہے میں نے۔ احمد بھلا لڑکا تھا۔ اتنا بھلا تھا کہ مجھے ایک دن جیب سے نکال کر رسید دکھانے لگا کہ دیکھیں میں نے اپنی بیوی کے لیے سارا سامان لے لیا ہے۔ آپ اپنی بیٹی کو بس دعائیں دیجیے گا، جہیز نا دیجیئے گا۔ یوں لگتا تھا کہ آسمان سے شہزادہ اترا ہے میری بیٹی کے لیے۔ بس ایک لمبا ساتھ نہیں دے سکا۔ میری بیٹی کے ساتھ مسکراتے مسکراتے وہ اللّٰہ کے پاس ایسا گیا کہ دوبارہ ہنسی ہی نہیں میری عائشہ۔۔۔۔دل تو ایسے دکھتا ہے اب ان یادوں پہ جیسے جلتا کوئلہ نرم ہاتھ پہ رکھ دیا ہو۔۔۔۔کوئی مجھے بتائے کہ میں اکلوتی بیٹی کے بیوہ ہونے پر زیادہ غمزدہ تھا یا وہ ماں باپ زیادہ غمزدہ تھے جن کا اکلوتا بیٹا چلا گیا تھا۔ یقیناً ان کا غم زیادہ بھاری ہے۔ میری بیوی، ثمینہ، کہتی تھی کہ بڑا بوجھ ہوتا ہے بیوہ بیٹی کا۔ مجھے تو نہیں لگا تھا بوجھ۔ میں تو خاموشی سے اسے لے آیا تھا واپس۔ اب تو اس کی عدت کو گزرے سال ہو چلا ہے۔ نا شکل بدلی ہے اس کی، نا سگھڑ پن، اللّٰہ جانے پھر بھی کوئی دوبارہ ہاتھ نہیں مانگتا۔ میں سوچتا ہوں کہ لوگوں کے ذہنوں کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا جب تو میری بیٹی کا بوجھ بھی ہو جائے گا ہلکا۔ ثمینہ اس دن کہہ رہی تھی کہ اسلام میں تو بیوہ سے شادی کا بڑا اجر ہے۔ لوگ نا جانے کیوں مسلمان بن کہ نہیں رہتے۔ با خدا میرا مقصد اس کی دل آزاری نہیں تھا۔ میں نے بس ارادہ ظاہر کیا تھا کہ چھوٹا فردین جب شادی کے قابل ہوگا تو اس کے لیے بیواؤں یا طلاق یافتہ بچیوں کے رشتوں کو بھی مد نظر رکھیں گے، ان کے رشتوں کو اچھوت نہیں سمجھیں گے۔ مسلمان ہونے کا ارادہ ہی ظاہر کیا تھا۔ اس کے گھورنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی مجھے بعد میں۔ دلیپ چچا کا آنگن یاد آگیا مجھے پھر۔ انہوں نے آخر رام رام کرتے اپنی بیٹیوں کی شادی کر دی تھی۔ ہمارے ہاں سے اللّٰہ اللّٰہ کر کہ کئی تحائف بھیج دیے گئے۔ کچھ عرصے بعد آپا کی ہم جولی، ان کی چھوٹی بیٹی، بے چاری کا شوہر مر گیا۔ جس دن اس کے شوہر کا جسم راکھ میں بدلا گیا تھا ٹھیک اس کے اگلے دن دلیپ چچا نے اسے بھی جلا دیا۔ قسم خدا کی، میری آنکھیں کئی روز نم زدہ رہیں۔ اماں کہتی تھیں تُو نے بڑا ہو کر مرد بننا ہے ، مرد رویا نہیں کرتے۔ کیوں نہیں روتے مرد؟ انسان تو سبھی روتے ہیں۔ آنسو تو درد کا outlet ہوتے ہیں۔ کوئی آنسوؤں کو آنکھوں سے بہا دیتا ہے۔ کوئی لکھ کہ آنسو سجا دیتا ہے۔ کوئی بے حس بن کر آنسو کو دبا دیتا ہے۔ تو کوئی چیخ چلا کر آنسوؤں کو ڈرا دیتا ہے۔ اللّٰہ کے ہاں آخر الذکر دونوں رستے اچھے تو نہیں سمجھے جاتے، تو پھر درد کے نکلنے کے قدرتی رستے میں حائل کیوں ہونا؟ خدا کے نظام کے ہوتے ہوئے بھی اپنے بنائے نظام کو چلانے کی کوشش میں جو نتیجہ نکلتا ہے، بہت زہریلا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسے لگتا ہے کہ میں اجنبی ہو جاتا ہوں سب کے بیچ لیکن پھر کوئی اندر سے کہتا ہے کہ توبہ کرو ایوب جواد، تمہارے لیے خدا نے فضل الدین کو تخلیق کیا تو ہے۔ فضل الدین، میری شام کی چائے کا ساتھی۔۔۔۔ اس چمن میں قدم دھرتے ہی میرا بننے والا پہلا دوست۔ مجھے آج بھی اس سے پہلی ملاقات یاد ہے۔ لاہور کے اسٹیشن پہ مسلمانوں کے مشتعل ہجوم میں، ٹوٹے دلوں اور بپھرے ہوئے جذبات کے ساتھ، میں چاقو لیے ہوئے کھڑا تھا۔ وہ بھی میرے ساتھ کھڑا تھا۔ یہاں سے ہندوستان کے لیے روانہ ہوتے ہوئے ہندو اور سکھوں کے قافلوں پہ لوٹ پڑنے کے لیے تیار، ان سے ان تمام تکالیف کا بدلہ لینے کے لیے جو ان کے بھائیوں نے ہماری قوم پہ اپنی سرحدوں کے اس پار ڈھائی تھیں۔ تب بھی جب ہماری اور ان کی علیحدہ حدود کا تعین نہیں ہوا تھا اور تب بھی جب حدود متعین کی گئی تھیں۔ مجھے بدلہ لینا تھا۔ اپنی ماں کا، باپ کا، اپنے خاندان کے بقیہ شہیدوں کا، بہن بیٹیوں کی عزت کی بے حرمتی کا۔ میں 12 سال کا بچہ، 21 سال کے نوجوان کی طرح کاٹ کھانے کو تیار تھا۔ وہ ہاتھ فضل الدین کا ہی تو تھا جس نے مجھے آگے بڑھنے سے روکا تھا۔ بدنصیب تھا یا شاید با نصیب، پورے کا پورے خاندان مارا گیا تھا اس کا، پھر بھی اپنے اوپر قابو پا گیا تھا۔ بول رہا تھا کہ چھوڑ دے تُو جو بھی ہے۔ چھوڑ دے، جانے دے۔ مانا کہ قومی تعلق ہے ان لوگوں کا ان درندوں کے ساتھ، مگر یہ وہ ہاتھ نہیں ہیں جنہوں نے ہمارے اپنے مارے ہیں۔ قسمت نے ان کے ہاتھوں پہ ہمارے اپنوں کا خون نہیں لگنے دیا تو جانے دے نا۔ اس دن میرے ہاتھوں پہ کسی کا خون تو نہیں لگا مگر میرے ہاتھ ایک سچا یار لگ گیا۔” انہوں نے ہاتھ روک لیا۔ اور قلم رکھ کر بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ کو سہلایا۔ چلتے چلتے اب جلدی تھک جاتے تھے، لکھتے لکھتے دیر سے تھکتے تھے۔ باقی کل سہی۔۔۔۔انہوں نے یہ سوچ کر قلم رکھ دیا۔ دل میں تو بہت کچھ تھا مگر ہاتھ جواب دے گئے تھے۔
__________________________________________________
رات کے 12 بجتے ہی تاریخ 14 اگست 2003 ہو گئی۔ نوجوانوں میں جشن کا سماں آدھی رات تک بندھا رہا اور جب ان کی آنکھ لگی تو ایوب جواد کی آنکھ کھل گئی۔ وضو کے پانی سے خود کو پاک کر کے، تہجد ادا کر کے وہ واپس رائٹنگ ٹیبل پہ آ بیٹھے تھے۔ واپس، اپنے دل کے بقیہ حصوں کو جوڑنے۔۔۔۔۔اگست شروع ہوئی نہیں کہ دل کا طوفان سر اٹھانے لگتا تھا۔ نا جانے وہ اس طوفان سے تنگ تھے کہ یادوں کے وار سے۔ قلم اٹھایا اور دیکھا کہ کل کہاں سلسلہ روکا تھا، سو وہیں سے شروع کیا۔
“اس دن کے بعد سے، فضل الدین کے ملنے کے بعد، مجھے کسی اور انسانی دوست کی حاجت نا رہی تھی۔ میری تو آنکھوں سے درد بہہ جاتا تھا۔ اس کی تو آنکھیں پتھریلی تھیں۔ سب کو گنوانے کے بعد اس کی زندگی تو کیا، اس کی ذات بھی شاید ایسی ہو گئی تھی کہ بس چلتا تو ماتھے پہ لکھ ڈالتا کہ کمزور دل والے افراد دور رہیں۔
آج شام مجھے کہہ رہا تھا کہ پیارے ایوب! کتنے خوش نصیب ہیں وہ ممالک جو یہودیوں کے پیسوں کے قرض دار نہیں ہیں۔
ہم قرض دار نا ہوتے تو غلام بھی نا ہوتے۔ اب میں بھلا کیا کہتا اس کو؟ نا جانے کیوں اس بات پہ آکر میرا سر جھک جاتا ہے۔ پھر سر دوبارہ اٹھانے کے لیے میں بات ہی بدل دیتا ہوں۔ اقبال کی خودی سے ہوتے ہوتے ہم غالب کی بے خودی تک جا پہنچتے ہیں۔ ایسا دیوانہ یار ہے میرا، ہر شام میرے گھر کے دالان میں گرم چائے پینے کے بعد مجھے یوں دیکھتا ہے، جیسے کہہ رہا ہو، چائے تو ہوگئی اب تھوڑی اردو بھی ہو جائے؟ چائے بھی میں دن میں دو دفعہ ہی پیتا ہوں۔ ایک شام کو فضل الدین کے ساتھ، ایک فجر کے ٹھیک ایک گھنٹے بعد عائشہ کے ساتھ۔ اب بھی فجر کی اذان ہو گی تو نماز پڑھے گی پھر قرآن پڑھے گی۔ پھر چولہے پہ چائے چڑھائے گی۔ تھوڑی اپنے لیے، تھوڑی میرے لیے۔ اب تو گھر کے پاس والے مدرسے بھی جانے لگی ہے۔ کل مجھے کہہ رہی تھی کہ ابو قرآن اللّٰہ سے جوڑ دیتا ہے اور اللّٰہ سے جڑ جاؤ تو اللّٰہ کہتا ہے کہ میرے سوا کسی کے آگے سر نا جھکاؤ۔ میں تو اللّٰہ کی بندی ہوں نا پھر خوف کیسا؟ مجھے بتا رہی تھی کہ اللّٰہ نے انسان کو فقط اپنا بندہ کہا ہے۔ اپنا غلام کہا ہے۔ تو پھر کیوں اللّٰہ کے فیصلوں پہ شکوہ کناں ہو کر جوگی بن کہ بیٹھ جانا۔ اسکی تقدیر پہ راضی ہو کر اس کے بن جانے میں کیسی قباحت؟ اس کے بنائے ہوئے بندوں کی جہالت پہ دل جلانے کے بجائے اپنے دل کی جھاڑ کو صاف کر کہ اس کی مخلوق کو اس کا پیغام پہنچانے میں کیسی قباحت؟ میں نے اس کا ماتھا چوم کر کہا کہ ناں بیٹی! اس میں کیا بُرا؟ اس وقت مجھے لگا کہ وہ آزاد ہو گئی ہے۔ میری بیٹی مجھے آزاد لگی۔ اب کھانا بناتی ہے، اپنے ساتھ باندھتی ہے اور مرحوم شوہر کے ماں باپ سے ملنے بھی چلی جاتی ہے۔ اپنی ماں سے کڑھائی بھی سیکھ رہی ہے اب تو۔ کڑھائی بہت عمدہ کرنے لگی ہے بالکل میری آپا کی طرح۔ میری آپا کو سلائی کڑھائی میں بڑی مہارت تھی۔ کاش نا ہوتی۔ نا اسے یہ کام آتا نا پھوپھی اپنے بیٹے کی بَری کے لیے اسے اپنے گھر بلاتیں۔ نا میں شادی کی تیاریاں دیکھنے آپا کے ساتھ جاتا۔ نا ہم جاتے، نا ہم وہاں روک لیے جاتے۔ شام کو خبر مل گئی کہ ہمارے محلے پہ حملہ کر دیا گیا ہے۔ ہمارے گھروں کو، انسانوں سمیت جلا دیا گیا ہے۔ میرے ماں باپ،میرے سرخ اینٹوں والے گھر میں تھے۔ جہاں میں نے اپنے ہاتھوں سے پودے بھی لگا رکھے تھے۔ میری کل متاع کو آگ لگا دی گئی تھی۔ آپا تو کتنے دن ہوش و حواس سے بیگانہ رہی تھی۔ میں خود کو لاش سمجھ لیتا تھا۔ نا ہمیں وہ گھر دیکھنے جانے دیا گیا جو راکھ ہو چکا تھا۔ نا میرے ماں باپ کی جلی لاش ملی کسی کو۔ انسان کیسے انسانوں کو شناخت کے قابل نہیں چھوڑتے؟ کیسے؟ پھوپھو، چچی، تایا سے لیکر خالہ اور نانی، غرض جتنے بھی رشتے بچ گئے تھے زندہ۔۔۔۔۔دستِ محبت سب کا ملا۔ مگر مجھے وہ شرارتی سا لڑکا دوبارہ نہیں ملا جو میرے اندر ہوا کرتا تھا۔ میں آپا کے گلے لگ کر بہت روتا تھا۔ اس خواہش میں روتا تھا کہ اندر کا تھوڑا سا درد ہی نکل جائے۔ کہ رات کو میں سو ہی سکوں۔ لیکن ماں باپ کو کھو دینے کے درد کا کوئی outlet نہیں ہوتا۔ یہ درد دل کو چمٹ جاتا ہے۔ پھر ساری زندگی گزر جاتی ہے مگر اُس نقصان سے پہلے والا انسان ہاتھ سے چلا جاتا ہے۔ میں ہر چودہ اگست پہ آپا سے ملنے جاتا ہوں۔ نانی دادی بن گئی ہے مگر میرے بازو کو پکڑ کر اب بھی ایسے روتی ہے کہ میں، میں نہیں رہتا پھر۔ میں وہ بارہ سال کا بچہ بن جاتا ہوں جس کے اندر صحرا وجود میں آتا ہے اور نخلستان کھو جاتا ہے۔” انہوں نے قلم روک دیا۔ کیونکہ آنکھوں کے آگے دھند آگئی تھی۔ آنسو کے قطرے کاغذ پہ گرے تھے۔ ایک دو لفظ بھیگ گئے تو سیاہی پھیل گئی۔ انہوں نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ لیا اور کہنیاں میز پہ ٹکا دیں۔ بے آواز ماتم ہو رہا تھا۔ دالان میں لگا جھنڈا انہیں دیکھتا گیا۔ دیکھتا ہی گیا۔ ہوا نے کھڑکی کے اندر آنے کی کوشش کی مگر بند شیشوں سے ٹکرا کر بے بس ہو گئی۔ انسان جب درد لے کر اپنے گھر سے در بدر ہو کر کسی انجان جگہ پہ آتا ہے، اس زمین پہ اپنا درد بانٹ لیتا ہے، اس مٹی میں اپنے پرانا وجود دفن کر کہ نیا خول چڑھا لیتا ہے۔ وہاں کے باسیوں میں اپنے کھوئے ہوئے رشتے تلاش کر لیتا ہے تو ایک وقت آتا ہے کہ وہ زمین کا ٹکڑا، انجان نہیں رہتا، اجنبی نہیں رہتا، وہ جان سے پیارا ہو جاتا ہے۔ اور ضروری ہے کہ جان سے پیاری چیز ہر لحاظ سے مکمل ہو؟ خوف و حزن سے بھرا اک سفر، لاشوں کا بوجھ اٹھائے لاشیں، زندگی سے زندگانی مٹ جانے کے بعد بھی جان جانے کا خوف۔۔۔۔۔۔ ناجانے کیوں ہر شخص قربانیوں کا احترام نہیں کرتا؟ کئی لمحے سرک گئے۔ ان کے گہرے سانس بھرنے کی آواز کمرے میں گونجی اور دونوں ہاتھ چہرے سے ہٹ گئے۔ آنکھیں ایک دفعہ زور سے میچ کر پھر کھولیں اور قلم اٹھا لیا
“خدا میرے ماں باپ سے مجھے ملائے۔۔۔۔ زندہ رہ جانے والے، شہداء سے جا ملیں۔ روحوں کا قرار امر ہو جائے۔ آمین ثم آمین۔۔۔۔ میں جب ان سے ملوں گا تو ان سے پوچھوں گا ساری کہانی، ہمارے بعد اکیلے اس دنیا سے جنت تک آنے کی کہانی، مگر پھر سوچتا ہوں کہ وہ اللّٰہ کی بنائی ہوئی جنت ہوگی، وہاں کوئی غم یاد رہے گا کیا؟ یاد رہ بھی گیا تو شکوہ رہے گا کیا؟ یقیناً نہیں، ہرگز نہیں، اب احسن جب بھی کہے گا نا کہ ابو پرانی باتوں کو یاد مت کیا کریں تو میں کہہ دوں گا کہ خدا کی جنت میں جا کر بھول جاؤں گا، یہاں یاد رکھنا چاہتا ہوں۔ وہاں میرے ماں باپ خیالوں سے نکل کر سامنے آجائیں گے تو ذہن کو خالی کر دوں گا۔” انہوں نے پھر قلم رکھ دیا۔ آج ہاتھ نہیں تھک رہے تھے۔ لفظ تھک رہے تھے۔
احساسات محسوس ہو رہے تھے، بیان نہیں ہو پا رہے تھے۔ وہ دو لمحے میز پر ایک دوسرے کے اوپر رکھی کتابوں کے کنارے پر لکھے عنوانات کو دیکھتے رہے۔ نظر سرک کر پڑی تو ہفتہ پرانے اخبار کے سرورق پہ سرخی سے مزین کی گئی خبر پہ جا ٹکی۔ سرخ رنگ سے لکھی گئی خبر۔۔۔۔۔ لاہور کے علاقے سمن آباد، ایک گھر میں مشکوک سرگرمیوں کی بنا پہ پولیس کا چھاپا، نوجوانوں کا گروہ پکڑا گیا، کافی مقدار میں نشہ آور اشیاء برامد
“نشہ آور اشیاء ۔۔۔۔؟” وہ زیرِ لب بولے۔ جذبات گڈ مڈ ہونے لگے تھے۔ اک غم کا غم منانے کو بیٹھے تھے۔ کہ نظر کے سامنے کوئی اور غم آگیا تھا۔ وہ چند لمحے اسی خبر کو دیکھتے رہے۔ پھر گہرا سانس بھر کہ دوبارہ قلم کو تھام کہ رہ گئے۔ سوچ، لفظوں میں ڈھلنے لگی۔ جیسے جیسے ڈھلتی گئی۔ کاغذ پہ سیاہ حرف نظر آتے گئے۔ کیا کہہ رہے تھے وہ حروف؟ کہہ رہے تھے کہ
“سنا تم نے اے قلم؟ میرے ملک سے نشہ آور اشیاء برامد ہوئی ہیں۔ افسوس ہو رہا ہے مجھے۔ اس بات پہ نہیں کہ نشہ عام ہو رہا ہے، افسوس اس بات پہ ہے کہ اسلام کا نام لینے والوں میں عام ہو رہا ہے۔ مگر میں اتنا حیران کیوں ہو رہا ہوں؟ کیا میں نے اخلاقی اقدار کی تنزلی کبھی نہیں دیکھی؟ انسان پہلے گناہوں سے اجنبیت مٹاتا ہے، پھر مدہوش ہوتا ہے اور پھر جس حد تک جا سکتا ہے، چلا جاتا ہے۔ کیا میرے ملک میں فحاشی کے اڈے نہیں چلتے؟ کیا پیسوں کے عوض، جانیں اور عزتیں بکنا بند ہو گئی ہیں؟ نادان مت بنو ایوب جواد! کیا تم نے چائے کے ڈھابے پہ اپنے ہی محلے کے نوجوانوں کی باتیں نہیں سنیں؟ کیا تم نے ان کو عورت کے جسم کے تخیلات میں گم پا کر اپنی بے راہ روی پہ ہنستے نہیں دیکھا؟ کیا نفسانی خواہشات کو جائز بنا کر اپنے دیس کے جوانوں کو ترغیبِ گناہ دیتے نہیں دیکھا؟ دیکھا ہے، سنا ہے، تو کیوں اتنے حیران ہو رہے ہو؟ کل وہی نوجوان میرے گھر کے باہر بھی تو تھے، فردین کے دوست بن کر، کل پھر ان کی گفتگو میرے کانوں کا محور بنی رہی۔ یہاں پیدا ہونے پہ شرمندگی سے لے کر یہاں کی گندگی و غلاظت پہ بے شمار تبصروں سے ہوتے ہوئے وہ بل آخر اسی گند کی آزادی پہ خوشی کا سماں باندھنے کو بازار چل دیے تھے۔ اسلام کے نام پہ آزاد ہونے والے ملک کی آزادی کا جشن منانے کے لیے سبھی نمازیں قضا کر کہ یوم آزادی کی تیاری کرتے رہے تھے۔ ہم اسلام کو آزادی سے آج بھی عمل میں نہیں لا سکتے؟ ہم اسلام کو شاید آج عمل میں لانا چاہتے بھی نہیں ہیں، جہاں گناہ کی آزادی ہو وہاں خدا سے شکوے بنتے نہیں ہیں۔ ڈر لگتا ہے کہ فردین بھی تو کہیں۔۔۔۔؟ کہیں میرا بیٹا بھی تو؟ کہیں میرا بیٹا بھی تو نفس کا پجاری نہیں بن گیا؟ نہیں۔۔۔۔ہر گز نہیں، میرا دل کہتا ہے نہیں! لیکن۔۔۔۔میرا دل ڈر کیوں رہا ہے پھر؟” انہوں نے ہاتھ روکے۔ دل نا جانے کیوں تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔ یوں لگا جیسے مائع بن گیا ہو۔ قطرہ قطرہ، انہوں نے گردن گھما کہ دائیں جانب دیوار کے وسط میں سجاوٹ کی غرض سے لگے چوکور شیشے کو دیکھا جس کی چوڑائی اور لمبائی اتنی تھی کہ آدھی دیوار کو گھیر رکھا تھا۔ شیشے میں ان کا عکس نظر آیا۔ میز پہ پڑے لیمپ کی روشنی میں ان کے جھڑیوں زدہ ہاتھ قلم تھامے نظر آرہے تھے۔ وہ اپنے ہاتھوں کو آئینے میں ہی دیکھتے گئے۔ پھر واپس انہوں نے کاغذ کو دیکھا۔ چہرہ متفکر نظر آتا تھا۔ آنکھیں بے یقین۔ انہوں نے اندر کی آگ نکالنے کا کام قلم کو پھر سے سونپ دیا
نہیں۔۔۔۔میں اسے ایسا نہیں بننے دوں گا۔ میں اسے بتاؤں گا کہ خدا سے ناراضگی مول نہیں لیتے۔ اسے سمجھاؤں گا کہ فحاشی، تباہی کا رستہ ہے، عذاب کا رستہ ہے۔ اپنے بیٹے کو میں یوں برباد ہونے کے لیے نہیں چھوڑوں گا۔ میں اسے کہوں گا کہ جوانی کی مستی میں کیے گئے گناہ بہت بھاری ہوتے ہیں۔ بتاؤں گا کہ تم زوال پذیر ملک کا حصہ اس لیے نہیں ہو کہ خدا تم سے محبت نہیں کرتا، تم زوال پذیر ملک کا حصہ اس لیے ہو کہ خدا چاہتا ہے تم زوال کو عروج میں بدلنے والوں میں اپنا نام لکھوا کہ اس دنیا سے جاؤ۔ خدا تمہارے ہاتھوں سے کئی لوگوں کی زندگیوں میں رونما ہونے والی آسانی لکھوانا چاہتا ہے۔ وہ ہم جیسے انسانوں سے چند اچھائیوں کی توقع رکھ کر بدلے میں ہمیں ابدی سکون والی زندگی سے نوازنا چاہتا ہے۔ اور وطن؟ کیا ہوتا ہے وطن؟ اک زمین کا ٹکڑا؟ زمین کے ہر ٹکڑے کی خوشحالی کے ضامن، اس پر بسنے والے افراد ہوتے ہیں۔ زمین پہ بسنے والوں کے اعمال زمین کے مستقبل کے عکاس ہوتے ہیں۔ اے قلم! میں تمہیں ایک راز کی بات بتاؤں؟ بہترین معاشرہ، بہترین دین پہ عمل کرنے والے بناتے ہیں۔ مکمل دین کے مکمل اصول، ویرانیوں کو آباد کرتے ہیں۔” ہاتھ پھر رک گئے۔ انہوں نے دالان میں لگے جھنڈے کو پھر دیکھا۔ وہ آج انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔ پھر انہوں نے وہیں سے نظر آتے آسمان کو دیکھا۔ موسم ابر آلود لگتا تھا۔ انہوں نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی۔اور بائیں ہاتھ سے پیشانی کو مسلا۔ آنکھیں بند کر کہ ہوا کو جسم میں منتقل کیا۔ پھر بایاں ہاتھ گود میں جا گرا اور دایاں بازو ڈائری کے صفحے پہ ہی پڑا رہا۔ پاکستان آنے کے کچھ عرصے بعد، تعلیمی نظام بحال ہونے کے بعد، سکول میں کھڑے ہو کر دیگر بچوں کے ساتھ پڑھی جانے والی اقبال کی نظمیں ان کے کانوں میں گونجنے لگی تھیں۔ ہم کون ہیں سے لے کر، میں کون ہوں تک کا سفر۔۔۔۔کتابوں، کہانیوں، تقریروں، اور زندگی کے سنگ آنکھوں کے آگے سے گزرنے لگا۔ خواہشِ ذات، دنیا کی نظروں میں رہنے کی آرزو سے نکلی اور تلاشِ انساں کی صورت میں ذات کے کونے میں جا بیٹھی۔ وہ آگے کو ہو کر بیٹھ گئے۔ اور ہاتھ پھر حرکت میں آگئے
میں اس خود غرض گروہ میں نہیں آتا جن کو اپنی جڑوں سے وابستگی کا کوئی پاس نہیں ہے۔ نا میں وہ محب الوطن ہوں جو اس دیس کے باسیوں کی مشکلات اور پریشانیوں سے نظریں چرا کر ان پہ ماضی کی فتوحات اور قربانیوں کی چادر ڈال دیتا ہے۔ میں ان دیوانوں میں سے ہوں جو کہتے ہیں کہ تمہارا اس ملک میں پیدا ہونا تمہارا نہیں، تمہارے خدا کا فیصلہ تھا۔ سو اس کی رضا کا احترام کرو، اس کی مصلحت پہ تھوڑا غور تو کرو۔ ہمارے سینوں میں اسلام کی روشنی اللّٰہ نے ڈال دی ہے، اس کو بجھنے سے بچا لیں گے تو معجزے در پہ آجائیں گے۔ ایک ٹوٹے ہوئے معاشرے کو جس دوا کی ضرورت ہوتی ہے، وہ مومن کے پاس ہوتی ہے۔ مسلمان تو ہم ہیں، مومن جس دن ہو گئے۔ تقدیر و تقریر ہی بدل جائے گی۔ رستہ بدلنے سے کیا ہو جائے گا، تدبیر بدل لو۔ مجھے تو اپنا وطن ایک آسمان سا لگتا ہے۔ تاریک سا آسمان، جس کے ستارے ایک دوجے سے بہت دور دور ہیں، اپنی روشنیاں کھو رہے ہیں۔ میری یہ خواہش ہے کہ اگر یہ ستارے اپنی روشنی نا کھونے دیں، قریب آجائیں، اتنے قریب کہ وہ انفرادی نا رہیں۔ آسمان چمک اٹھے اور ستارے اس مسرت سے کِھل جائیں کہ وہ باعثِ روشنی ہیں، کسی بڑی فتح کا وہ چھوٹا سا ہی سہی، مگر حصہ ہیں۔ کیا چلا جائے گا ہم سب کا اگر ہم اس ملک کو اپنی تھوڑی تھوڑی اچھائی دینا شروع کر دیں گے۔ کوئی ایمانداری دینا شروع کرے تو کوئی سچائی، حاکمِ وقت کی نا انصافی اور ظلم کو بھلا کر صرف ہم، صرف رعایا اگر ظالم بننے سے رک جائے تو، کیا خدا اپنے بندوں کی کوششوں کا پھل نہیں دے گا؟ لیکن ان کا کیا؟ جنہیں خدا پہ، اس کے کامل دین پہ ہی بھروسہ نہیں ہے؟ نا جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ یہاں مسئلہ مصائب کا نہیں ہے، ایمان کا ہے۔ پاکستان اس لیے برباد نہیں ہے کہ یہاں حکمران غاصب ہیں، پاکستان برباد اس لیے ہیں کیونکہ یہاں کا نوجوان پیسے اور عیاشی کو اصول اور محبت پہ فوقیت دیتا ہے۔ آزادی خون مانگتی ہے، نفس کی قربانی مانگتی ہے۔ یہ تو سب کے سب غلامی میں راضی ہیں۔ نجی زندگی میں نفس کو پوجتے ہیں، معاشی زندگی میں کافروں کے تلوے چاٹتے ہیں۔ اب آزاد کون ہو گا؟ عائشہ ٹھیک کہتی ہے کہ خدا سے جڑنے والے آزاد ہو جاتے ہیں، خدا سے جڑنے والوں کو چاہیے کہ وہ غلامی کے طوق کے خلاف آواز اٹھائیں۔ وہ ٹھیک کہتی ہے، آزادی اللّٰہ کے پاس ہوتی ہے، اسی کے پاس ہی ملتی ہے۔ ٹھیک کہتی ہے وہ۔۔۔۔فضل الدین بھی ٹھیک کہتا ہے۔۔۔۔ہیں بہت لوگ جو اب بھی ٹھیک کہتے ہیں۔۔۔۔۔”
اور قلم پہ ہاتھوں کی گرفت کمزور ہو گئی۔ تھکے ہوئے ہاتھوں سے چھوٹ کر وہ تھکے ہوئے کاغذ پہ آگرا۔ ڈائری کے کاغذ ہوا کے زور سے پلٹے۔ اک صفحہ نظر آیا۔ حبیب جالب کی آمریت کو لہو لہان کرنے کی کوشش میں پیش کی گئی نظم ایوب جواد کی لکھائی میں، لیمپ کی پہلی روشنی میں نظر آرہی تھی۔
دیپ جس کا محلات میں ہی چلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو
صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا
میں نہیں مانتا
میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نا ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
دیوار پہ لگا شیشہ اب دیکھ رہا تھا کہ کرسی پہ ایوب جواد نہیں بیٹھے۔ مگر چھت پہ لگے پنکھے کی ہوا سے ڈائری کے صفحات الٹ پلٹ رہے ہیں۔ دور کہیں سے، اذانوں کی آواز آرہی تھی۔
Welcome to Urdu Novels Universe, the ultimate destination for avid readers and talented authors. Immerse yourself in a captivating world of Urdu literature as you explore an extensive collection of novels crafted by creative minds. Whether you’re seeking romance, mystery, or adventure, our platform offers a wide range of genres to satisfy your literary cravings.
Authors, share your literary masterpieces with our passionate community by submitting your novels. We warmly invite you to submit your work to us via email at urdunovelsuniverse@gmail.com. Our dedicated team of literary enthusiasts will review your submissions and showcase selected novels on our platform, providing you with a platform to reach a wider audience.
For any inquiries or feedback, please visit our Contact Us page here. Embark on a literary adventure with Urdu Novels Universe and discover the beauty of Urdu storytelling
Writer's other novels:
- Kuch ishq mn rng e jnun b tha by Naila Tariq
- mere khwab by Syeda Noor ul Ain
- hasil sy la hasil by Ayesha Yasin
- Anjan musafira by Ifra Pervaiz
- intiqam e mohabat by Syeda Noor ul Ain
0 Comments