Urdu Novels Universe

A Universe of Endless Stories Awaits You

 

ماں بی میں نے دریاں بچھوا دی ہیں“ ۔۔۔۔ سر پہ ٹکے دوپٹے کا پلو آگے سے مضبوطی سے تھامے اس نے انہیں گویا مطلع کیا۔

اور ہاں تسبیح اور گٹھلیاں بھی رکھوا دیں ہیں اور کوئی حکم ؟

ہاں ٹھیک ہے ماہ رخ ۔۔۔ کونڈوں کا کیا ہوا ؟“ صوفے میں دھنسی ہوئی بارعب خاتون ماں بی نے تسبیح کے دانے گھماتے ہوئے اس سے سوال کیا

 ’کیا ماں بی ! ہر بار آپ ایک ہی بات کرتی ہیں ۔۔۔۔۔ یہ سب غلط ہے ، ہمارے گھر ایسا کچھ نہیں ہوگا ‘۔۔۔۔۔۔ مطالعہ میں غرق ان کی بیٹی فوراً متوجہ ہوئی۔ 

عینی تم چپ کرو ۔۔۔۔۔ دیکھا نہیں ہے میں ماہی سے بات کر رہی ہوں اور دو بڑوں کے پیچ چھوٹے بولتے بالکل اچھے نہیں لگتے وہ بھی بات کاٹ کر ۔۔۔ کیا یہ تمیز سکھائی ہے میں نے تمہیں بچپن سے اب تک ؟ “ ۔۔۔ ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا گیا۔ 

ہاں تم بتاؤ ؟“۔۔۔ ماہ رخ کی جانب رخ کر کے اسے متوجہ کیا گیا اور عینی کو یکسر نظر انداز۔ 

ماں بی پلییییز ، بات کو سمجھنے کی کوشش کریں نا ۔۔۔۔ ہم یہ سب کچھ نہیں کریں گے ۔۔۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ‘ 

کہہ دیا ہے نا!!! ہمیں تم سے بحث نہیں کرنی اس لیے تم بھی ہمارے کاموں میں مداخلت مت کرو۔

لیکن کیوں ؟؟ ہدایت کی کوئی بات آپ لوگوں کے کانوں میں نہ پڑجائے آخر اس ڈر سے آپ لوگ اس موضوع پر بات ہی کرنا کیوں پسند نہیں کرتے ۔۔۔ اور دنیا کی اول فول، جمع خرچ ، سیاست، معاشیات ہر موضوع پر بحث کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

ہر جگہ ، ہر مقام اور ہر وقت کا کوئی نہ کوئی تقاضا ہوتا ہے اور ہم ہمیشہ اس کو مد نظر رکھ کر ہی کوئی بھی کام کرتے ہیں۔ اور اس وقت کا تقاضا یہ ہے کہ تم چپ کر جاؤ ۔۔۔ اگر تمہیں ہمارے عمل سے کوئی مسئلہ ہے تو تم اس میں شامل نہ ہو مگر ہمیں تنگ نہ کرو۔

ماں بی ہم امت وسط ہیں اور ہماری کچھ زمہ داریاں ہیں جن میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سب سے اہم ہے ؛ یعنی دوسروں کو بھلائی کا پیغام دینا اور برائی سے روکنا۔ “ 

کوئی خاص کام نہیں تھا تو اب کے ماہ رخ بھی صوفے پر ٹک کر بیٹھ گئی اور ساتھ ہی سوال بھی کر ڈالا

تو ہم کون سا برائی کا کام کر رہے ہیں؟ کیا تمہارے نزدیک نوافل پڑھنا گناہ ہے یا روزہ رکھنا ؟ یا پھر تم تسبیح کرنے کو برا گردانتی یا تمہارے لیے غسل بھی ایک معیوب کام ہے ؟ ….. کچھ ہمیں بھی بتاؤ۔“ ۔۔۔۔ 

سوال طنزیہ انداز میں کیا گیا تھا ۔ لیکن اب یہ طنز سہنا بھی قرۃ العین ظفر کو خوش کرتا تھا کیوں کہ اس کی نظر اس کے بدلے میں ملنے والے اجر پر تھی۔ 

 ماں بی نے بھی اپنی طنزیہ مسکراہٹ اس کی جانب اچھالی تھی کہ لو دیکھ لو کس بات سے منع کر رہی ہو تم اور آخر کب تک کرو گی ؟ 

نہیں بالکل نہیں ماہ رخ ان میں سے کسی چیز کو نہ غلط کہہ سکتی ہوں نہ سمجھتی ہوں اور نہ ہی کہہ رہی ہوں ۔۔۔ میں تو صرف ان تمام کاموں کو کسی ایک ماہ کسی ایک رات یا کسی ایک تاریخ سے مخصوص کر کے فرض کی طرح ادا کرنے سے منع کر رہی ہوں ۔۔۔بس اور کچھ نہیں۔

اس سے کیا ہوتا ہے ؟ یہ ہمارے یہاں کی روایات ہیں ، صدیوں سے چلی آرہی ہیں ، بزرگوں کی پیروی کر رہے ہیں ہم ۔۔۔ یہ ثواب کا باعث ہیں نہ کہ گناہ کا ؟

ماں بی ماہ رخ کے سوالوں پر پیچ و تاب کھا رہی تھیں کیوں کہ وہ ہرگز ایسا نہیں چاہتیں کہ اس موضوع پر کوئی اختلاف رائے ہو ۔۔۔۔ جو صدیوں سے رواج ہے وہ قائم رہے گا اس پر انگلی اٹھانے کی، اس کو غلط ثابت کرنے کی کسی کو کوئی اجازت ،کوئی حق نہیں ہے ۔۔۔ آخر یہ آباؤ اجداد کی روایتوں پر عمل نہ کرنے کی مجاز کون ہوتی ہے۔ مگر یہ نسل ہر چیز کی منطق مانگتی ہے۔ اور انہیں یقین تھا کہ عینی ماہی کو قائل کر لے گی اور ماہی جتنا مرضی ان کی فرمانبردار ہو اگر وہ قائل ہوگئی تو پھر ان روایات کی پاسداری کون کرے گا ۔۔۔ یہ بات ہمیشہ سے انہیں بے چین کرتی آئی تھی اسی لیے اس گھر میں اس طرح کے موضوعات پر ہمیشہ زبان بند کروا دی جاتی تھی۔ 

سنو ماہی ! اب تم نے سوال کیا ہے تو جواب لو ۔۔۔۔ میری بہن جسے ہم ثواب سمجھ کر صدیوں سے کرتے آرہے ہیں یہ سراسر ہمارے نامۂ اعمال میں گناہ لکھتا آرہا ہے کیوں کہ یہ سب دین میں نئی ایجادات ہیں ‘ 

تم یہ کہہ رہی ہو کہ نوافل نماز ، روزہ اور یہ تسبیحات دین میں ایجاد ہیں؟

یہ اس طرح نئی ایجاد ہیں کہ ہر سال رجب کی پہلی رات کو نفل ادا کرنا واجب سمجھنا اور اسے فرض کی سی اہمیت دینا نبی ﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ، تابعین سے ، تبع تابعین سے کسی سے بھی ثابت نہیں ، بالکل اسی طرح یہ کونڈے بھی غلط ہیں ، ہمارے دین میں اس طرح کا کوئی لذت و مزہ شامل نہیں جو انسان کو فرائض کا پابند تو نہ بنائے مگر ہر وہ کام جس میں شیطان مشغول کردے وہ ضرور ہو۔

نفل پڑھنے کے لیے اس کا ثابت ہونا ضروری تو نہیں ہے عینی! “ ۔۔ اعتراض بجا تھا۔ 

ہاں بالکل مجھے معلوم ہے لیکن میں یہ نہیں کہہ رہی مگر روایت بنا کر اس کی فرائض کی طرح پابندی کرنا نئی ایجاد ہے اور اس طرح پابند ہو کر کسی کام کو کرنے کے لیے اس کا ان تمام ہستیوں سے ثابت ہونا ضروری ہے جنکا میں نے ابھی ذکر کیا ۔۔۔ کیا سمجھی ؟

ہوں“ ۔۔۔ پر سوچ انداز میں جیسے اس نے عینی کو بات جاری رکھنے کا اشارہ دیا۔ 

میرا خیال ہے تم لوگ اس بحث میں نہ پڑو تو زیادہ بہتر ہے “…. ماں بی کے لیے ماہی کو قائل ہوتا دیکھنا نا قابلِ برداشت تھا۔ 

لیکن ما بی ہم بحث نہیں کر رہے ، میں ماہی کو اس کے سوالوں کے جواب دے رہی ہوں اور نہایت احترام سے دے رہی ہوں، وہ میری بہنوں ہی کی طرح ہے اور اس کو بھلائی کی بات بتانا میری زمہ داری ہے

ان کو جواب دے کر وہ پھر ماہ رخ سے مخاطب ہوئی 

تو میں یہ کہہ رہی تھی کہ کچھ بھی معاشرے میں اسلام کے نام پر رواج دینے کے لیے اس کا مستند ہونا بے حد اہم ہے ۔۔۔۔ ہمارے ہاں رغائب کا جو روزہ اور نماز رائج ہے وہ بھی ٹھیک نہیں ہے

اب وہ کیوں نہیں ٹھیک ؟ اس کے بارے میں تو حدیث بھی ہے “ 

اس بارے میں جو حدیث روایت کی جاتی ہے وہ باتفاق علماء موضوع ہے اس لیے یہ دن اور رات بھی اسی طرح سمجھنے چاہئیں جیسے عام دن اور عام رات ۔۔۔ اس میں کچھ بھی ایسا کرنا جس سے کوئی تخصیص یا امتیاز پیدا ہو غلط ہے۔ ‘ 

تم یہ بات کیسے کہہ سکتی ہو اور ہم تمہاری بات پر کیوں یقین کریں ؟

میں یہ چاہتی بھی نہیں ہوں کہ تم مجھ پر اندھا اعتماد کرو تم خود کتاب کھولو اور پڑھو ۔۔۔ جب تم دنیا کی پڑھائی کے لیے ریسرچ کر سکتی ہو تو تمہیں اپنے دین پر عمل کرنے کے لیے اس کے ہر صحیح اور غلط کا علم ہونا ضروری ہے اور اس کے لیے تحقیق لازم ہے وہ تم کرو

چلو ٹھیک ہے لیکن آج کی رات تو اہم ہے نا ۔۔۔ یہ تو سب لوگ ہی مانتے ہیں تو تم ۲۷ رجب پر ہمارے اس اہتمام کو کیوں روک رہی ہو ؟ “ 

 ’ ایک بات بتاؤں تمہیں ؟ اس پورے مہینے کے بارے میں جو بات صحیح سند کے ساتھ رسول ﷺ سے ثابت ہے وہ صرف یہ ہے کہ جب آپ رجب کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرمایا کرتے

 

اَلّٰھُمَّ بَارِک٘ لَنَا فِی رَجَبً وَ شَع٘بَانَ وَ بَلِّغ٘نَا رَمَضَان

اے اللّٰہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرمایئے اور ہمیں جلد رمضان تک پہنچا دیجیے۔

 

اس لیے یہ دعا کرنا سنت ہے۔ رہی بات ۲۷ رجب کی تو اس کی شب کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہ معراج کی رات تھی اور اس کی بھی کم و بیش وہی فضیلت ہے جو شب قدر کی مگر یہ سب بے اصل باتیں ہیں شریعت میں ان کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں کیوں کہ یہ بات یقینی طور پر کہی ہی نہیں جا سکتی کہ یہ شب معراج ہے۔ کچھ روایات کے مطابق آپ ﷺ ربیع الاول میں معراج پر تشریف لے گئے تھے اور بعض کے مطابق رجب میں۔

 

   اب تم خود سوچو اگر اس کی فضیلت شب قدر کی طرح ہوتی تو کبھی اس کی تاریخ میں اختلاف ہوتا ۔۔۔ کیا تم اس بات پر یقین کر سکتی ہو کہ ہم تک مکمل دین نہیں پہنچا ؟ اور کیا اتنی افضل شب کے بارے میں ہمارے اس دین میں اتنا بڑا اختلاف پایا جائے گا ؟ یقینی طور پر ہم اس رات کو شب معراج والی نہیں قرار دے سکتے۔ ‘ 

لیکن اگر اس کے بارے میں مختلف روایات ہیں تو سب لوگ کیوں اتنے یقین سے کہتے ہیں ؟

کیوں کہ سب لوگ تحقیق نہیں کرتے اور تمہارے اور ماں بی کی طرح صرف روایات کی پاسداری اور رواج کی پیروی کرنا ہی سب سے بڑا ثواب گردانتے ہیں ۔ تم خود مجھے بتاؤ کہ اگر ہم اس کو فرض کر بھی لیتے ہیں تو فضیلت صرف اس سال کی ہی اس رات کو حاصل تھی جب واقعۂ معراج وقوع پذیر ہوا ، ہر سال آنے والی اس شب کی وہ فضیلت نہیں ہے نہ ہی وہ اہمیت ہے۔ 

اہم وہ بات وہ تحفہ جو وہاں سے ہمارے رسول ﷺ ہمارے لیے اپنے رب سے مانگ کر لائے تھے۔ تمہیں پتا ہے جب رسول ﷺ نے رب تعالیٰ سے ملاقات کی اور اس کی لذت کو محسوس کیا نا تب بھی انہیں تم اور میں یاد تھے ، تب بھی انہیں اس بات کی فکر تھی کہ یہ جو اعزاز مجھے ملا ہے میری امت کو کیسے حاصل ہوگا ۔۔۔ کیا تم کسی کی اتنی محبت کو محسوس کر سکتی ہو کہ وہ تمہیں اپنے ہر اس کام میں شامل کرنا چاہے جو صرف اس کو نوازا گیا ہو ۔۔۔ معلوم ہے ہمارے نبی ﷺ نے اس وقت اللّٰہ تعالیٰ سے کیا کہا تھا ؟‘ 

جس خوبصورت انداز میں قرۃ العین نے بیان کیا تھا ماہ رخ تو کیا ماں بی نے بھی اشتیاق سے سوال کیا

کیا فرمایا تھا ؟

انہوں نے کہا تھا کہ میرے رب میں تو معراج پر آگیا اور آپ سے ملاقات کا شرف حاصل کر لیا لیکن یہ شرف میری امت کو کیسے ملے گا ؟ کیا وہ بھی یہ پا سکتی ہے ؟ 

اسی کے جواب میں اللّٰہ نے تحفے کے طور نمازیں دی تھیں ۔۔۔ کبھی سوچا ہے ”نماز مومن کی معراج ہے “ والی جو حدیث رٹتے آئے ہیں وہ کیسی معراج ہے اور کیسا تحفہ ہے ؟ وہ وہی متبادل ہے اور ویسی ہی ملاقات ہے جیسی قربِ الٰہی والی رسول اللہ ﷺ کی آسمانوں والی ملاقات تھی۔ یہی چیز تھی اس رات کی اصل روح جس کا ہمارے نزدیک کوئی احترام کوئی فضیلت نہیں ، جسے ہم سب سے آخر پر رکھتے ہیں اور توجہ دیتے ہیں تو اس رات کو جس رات کو تحفہ ملا تھا اور اصل تحفے کی ناقدری کرتے پھرتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس رات کے لیے دین کا چہرہ مسخ کر دیتے ہیں مگر اس تحفے کو کچھ گردانتے ہی نہیں جس پر دین کی عمارت کھڑی ہے ۔۔۔۔۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ایک روز ماں بی تمہیں تحفہ دیں اور اس تحفے کو تم اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دو مگر اس دن اس تاریخ کی کیلینڈر پر نشاندہی کر لو اور ہر سال اس دن تقریبات رکھا کرو ۔۔۔۔ کیا تمہیں نہیں لگتا تم نے اصل کو چھوڑ کر بے بنیاد چیز پر اپنی زندگی اور وقت صرف کر دیا ؟ ۔۔۔ 

یہی دین میں ایجاد ہے اور اسی ایجاد کو بدعت کہتے ہیں اور آپ ﷺ نے فرمایا ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا ٹھکانہ (جہنم کی) آگ ہے ۔۔۔ اب آگے آپ لوگوں کی مرضی ہے آپ کے لیے ان روایات کی پاسداری اہم ہے جو بے بنیاد ہیں یا رسول ﷺ کا فرمان ؟‘  

ماں بی اور ماہ رخ عینی کی باتوں پر سوچ میں پڑ گئی تھیں۔

Read Online

post text

Welcome to Urdu Novels Universe, the ultimate destination for avid readers and talented authors. Immerse yourself in a captivating world of Urdu literature as you explore an extensive collection of novels crafted by creative minds. Whether you’re seeking romance, mystery, or adventure, our platform offers a wide range of genres to satisfy your literary cravings.

Authors, share your literary masterpieces with our passionate community by submitting your novels. We warmly invite you to submit your work to us via email at urdunovelsuniverse@gmail.com. Our dedicated team of literary enthusiasts will review your submissions and showcase selected novels on our platform, providing you with a platform to reach a wider audience.

For any inquiries or feedback, please visit our Contact Us page here. Embark on a literary adventure with Urdu Novels Universe and discover the beauty of Urdu storytelling

Writer's other novels:

Categories: afsanaIslamic

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *