Urdu Novels Universe

A Universe of Endless Stories Awaits You

یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جسے آزادی کا مطلب جاننا ہوتا ہے جو جاننا چاہتی ہے کیا ہمارا وطن پاکستان آزاد ہے

Read Online

 

 

چودہ اگست ۔۔ آزادی اس کا دماغ ایک دفعہ پھر اس کے ذہن میں موجود دھندلی کڑیوں کو جوڑنے لگا تھا۔ وہ جاننا چاہتی تھی آزادی کا مطلب۔۔ اسے جواب ڈھونڈنا تھا کیا ہم آزاد ہیں۔ پچھلے چھبیس سالوں سے صرف اس نے اتنا سنا تھا کہ چودہ اگست 1947کو پاکستان بنا تھا اور مسلمان آزاد ہوے تھے مگر اس کا دماغ اس سوال کا جواب چاہتا تھا کیا مسلمان آج بھی آزاد ہیں؟

کرسی پر بیٹھی۔۔ پنسل کو دانتوں میں دبائے۔۔ ٹانگیں سامنے والی کرسی پہ سیدھی کیے۔۔۔ کتاب کو گود میں رکھے وہ ایک گہری سوچ میں گم تھی۔

“ماہم بیٹا نیچے آجاؤ کھانا کھالو”  ماں کی آواز پر اس کی سوچوں کا سلسلہ منقطع ہوا تھا سر جھٹکتے کتاب کو میز پر رکھے وہ نیچے اپنے ماں باپ کے پاس کھانے کے لیے آئی تھی۔

“کہاں تک پہنچی تمہارے سی ۔ایس۔ایس کی تیاری؟”

” بس بابا اللہ پاک کا فصل و کرم ہے تیاری تو ہوگئی ہے بس امتحان اچھے سے ہوجائیں” اسے یقین تھا کہ وہ کر لے گی آخر کرتی بھی کیسے نہ دن رات جاگ کر اس نے محنت کی تھی اس ٹیسٹ کو پاس کرنے کے لیے۔

“بیٹا باقی سب تو صحیح ہے بس تمہاری انگلش تھوڑی کمزور ہے اس پہ گرفت جماؤ ورنہ اللہ پاک نہ کرے کہیں یہ نہ ہو تمہارا ٹیسٹ کلیئر ہی نہ ہو۔”

“نہیں بابا آپ بے فکر رہیں ویسے بھی یہ پاکستان ہے یہاں کی قومی زبان اردو ہے اور الحمدللہ اردو پر تو مجھے عبور حاصل ہے” اپنے باپ کو تسلی دیتی وہ کھانا کھا کر واپس اٹھی تھی۔

دل میں ایک جزبہ تھا کہ اسے سی۔ایس ۔ایس پاس کرنا ہے۔

کمرے میں واپس آکر وہ دوبارہ سے اسی پوزیشن میں بیٹھی کتاب پڑھنے لگی ۔

چند دن بعد اس کے سی۔ایس۔ایس کا امتحان تھا جس کے لیے وہ بھر پور محنت کر رہی تھی۔ اس کی زندگی کا نصب العین سی۔ایس۔ایس افسر بننا تھا۔

صبح صبح اٹھ کر نماز فجر ادا کرنے کے بعد وہ اپنی کتابیں اٹھا کر بیٹھ گئی۔

وہ جلدی جلدی ایک دفعہ انہیں دوبارہ پڑھنا چاہتی تھی کہ کہیں کچھ اس کی نظر سے بچ نہ جائے۔ آج اس کے خواب کی تکمیل کا دن تھا۔

اسے سی۔ایس۔ایس کے امتحان کے لیے جانا تھا۔ اپنی محنت پر بھروسہ اور خدا کی زات پہ کامل یقین کے ساتھ اپنے ماں باپ کی دعائیں لیتی وہ گھر سے نکلی تھی۔

امتحان۔۔۔ پیپر دیکھتے ہی ایک دفعہ اس کا خود پر سے یقین اٹھا تھا کہ وہ یہ کیسے کرے گی۔ مگر اس نے محنت کی تھی۔

اس نے اپنی راتوں کی نیند کو قربان کیا تھا اپنے خواب کی تکمیل کے لیے۔

بسمہ اللہ پڑھ کر اپنا پیپر شروع کیا اور وہ لکھتی چلی گئی اس نے جو محنت کی تھی شاید وہ رنگ لا رہی تھی۔

ایک غریب ماں باپ کی بیٹی تھی اسے سہارا بننا تھا اپنے ماں باپ کا۔۔۔ وہ جانتی تھی اس کے ماں باپ کے پاس اس کے علاؤہ کوئی دوسرا سہارا نہیں۔۔۔۔ آنکھوں میں ایک عجیب سا جنون تھا۔۔۔ کچھ کر گزرنے کاذ۔۔۔۔۔ خوشی کے آنسو بھی تھے کیونکہ وہ پورا پیپر بغیر کسی مشکل کے حل کر چکی تھی۔

پیپر ختم ہوتے ہی وہ امتحان حال سے باہر نکلی اور اپنے گھر کی راہ پر چل دی۔

“کیسا ہوا پیپر بیٹا؟” جس نے سب سے پہلے اس کا استقبال کیا وہ تھے اس کے ماں باپ جو کب سے بے چینی کے عالم میں اپنی بیٹی کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے۔

ماں باپ ہیں ہی ایسی چیز چاہے اولاد کتنی ہی نافرمان کیوں نہ ہو۔۔۔۔ وہ ماں باپ سے کتنی ہی بد سلوکی کیوں نہ کریں۔۔۔۔ مگر اولاد۔۔۔۔ اولاد کی ایک پریشانی پر ان کا دل دہل اٹھتا ہے اپنی اولاد کی کامیابی کے لیے ہمیشہ ان کے ہاتھ رب کے حضور اٹھے رہتے ہیں۔

“جی !! امی ابو اچھا ہوگیا اللہ پاک کا شکر ہے۔”

ماہم کی آنکھوں میں خوشی ہی انہیں بتا رہی تھی کہ اس کا پیپر بہت اچھا ہوا ہے۔

“چلو اللہ خیر کریں گے رزلٹ کب آتا ہے اس کا؟” سادہ دیہاتی کم پڑھے ہوے لوگ تھے وہ کہاں واقف تھے ان سب سے۔۔۔ مگر وہ چاہتے تھے ان کی بیٹی قابل بنے۔۔۔ ان کی بیٹی کو ان کی طرح ان پڑھ نہ کہا جائے۔۔۔ وہ دنیا میں خدا کے علاؤہ کسی کی محتاج نہ ہو۔۔۔ دنیا کی تلخیاں اس پر اثر انداز نہ ہوں۔

یہ دنیا بہت ظالم ہے اس میں امیر لوگ ظالم ہو کر بھی مظلوم بن جاتے ہیں جبکہ غریب، بے یارو مددگار جن کا سہارا خدا کے سوا اس دنیا میں کوئی نہیں ہوتا جو قابل ترس ہوتے ہیں وہ مظلوم ہو کر بھی ظالم بن جاتے ہیں۔

وہ اس سب سے اپنی بیٹی کی حفاظت کرنا چاہتے تھے۔

“چھ مہینے بعد۔۔۔”

وہ محض اتنا جواب دیتی اپنے کمرے کی جانب چل دی۔

چھ مہینے۔۔۔ بہت مشکل سے گزرے تھے اس کے لیے یہ چھ مہینے ہر ایک پل کے بعد اسے اپنا خواب یاد آتا تھا اور ساتھ یہ بھی کہ اس نے پہلی سیڑھی پہ قدم رکھ لیا ہے۔

روزانہ اس خواب کے ساتھ کامیاب نہ ہونے کا ڈر اس کے دل کو کمزور کرتا تھا ۔

وہ نا چاہتے ہوے بھی یہ سوچتی تھی کہ اگر وہ کامیاب نہ ہوی۔۔۔۔ مگر آج وہ کامیاب ہوگئی تھی۔۔۔۔ پاس کر لیا تھا اس نے امتحان۔۔۔۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔

آج اس کا خود پربھروسہ مزید مضبوط ہوا تھا تھا وہ جان گئی تھی کہ اگر کچھ کرنے کی ٹھان لی جائے اور اس پر ڈٹ جائیں تو آپ وہ حاصل کر لیتے ہیں۔۔۔۔ کیا وہ آج اس قابل ہونے والی ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کا سہارا بن سکے۔۔۔ اس کے لیے یہ ناقابل یقین گھڑی تھی۔۔

ہاں یہ سب اس نے کیا تھا ۔۔۔اس کی محنت رنگ لائی تھی ۔۔۔۔۔خدا اس پر مہربان ہو اتھا ۔۔۔۔۔اس کے ماں باپ کی دعاؤں نے اس پر رحمت کا بادل قائم کیا تھا۔۔ آج عرش والا اسے اس کی محنت کے پھل سے نواز چکا تھا ۔۔۔اس کی محنت رایگاں نہیں گئی تھی ۔۔۔

اب صرف اس کا انٹرویو رہتا تھا ۔۔۔انٹرویو دینے کے لیے وہ انٹرویو کے لیے منتخب کی گئی جگہ پر پہنچی تھی۔۔۔۔۔ پاوں کو چھوتا ایک لمبا برقع ۔۔۔چہرے اور سر کو ڈھکے ایک حجاب ۔۔۔۔۔۔اس کی زینت تھا ۔

وہاں موجود لڑکیاں دیکھ کر ایک مرتبہ اس نے اپنا کانفیڈینس کھویا تھا ۔۔

بالوں کو جوڑے کی صورت میں باندھے ۔۔۔گلے میں دوپٹہ لیے ۔۔۔۔۔وہ لڑکیاں انگلش زبان میں ایک دوسرے سے بات کر رہی تھی ۔۔۔۔

انگلش ۔۔۔۔مجھے تو اتنی خاص انگلش نہیں آتی وہ سوچنے پہ مجبور ہوی تھی ۔۔۔

نہیں نہیں کچھ نہیں ہوتا نہیں آتی تو اس میں میرا کیا قصور ۔۔ہماری قومی زبان تھوڑی ہے ۔۔۔۔ہمارے پاکستان کی قومی زبان تو اردو ہے ۔۔۔تو اس میں فکر کرنے والی کیا بات ۔۔۔خود کو تسلی دیے وہ ان لڑکیوں کے نزدیک پڑی کرسی پر آ بیٹھی تھی ۔۔

چہرے پر مسکراہٹ پھیلی تھی۔۔ اعتماد کی مسکراہٹ۔۔۔۔ خود پر یقین کی مسکراہٹ۔۔۔۔۔ 

کچھ لڑکیوں کے انٹرویو کے بعد وہ اس صوفے سے اٹھتی انٹرویو روم میں گئی تھی جہاں بڑے عہدے دار انٹرویو لے رہے تھے۔

پوری ہمت جمع کرتی وہ ان کے سامنے بیٹھی تھی ۔۔۔۔ان کے ایک ایک سوال کا درست جواب اس کی مزید ہمت بندھا رہا تھا۔۔

اس نے قریباً تمام سوالوں کے جواب دیے تھے مگر انگلش زبان پہ عبور نہ ہو نے کی وجہ سے وہ کچھ سوالوں کے جواب نہ دے پائی تھی۔۔

مگر اسے یقین تھا اس کا رزلٹ اس کی انگلش کی مہارت کی بنا پر تو نہیں آئے گا۔

وہ بکھری تھی یک دم۔۔۔ جب اسے معلوم ہوا تھا وہ انٹرویو کلئیر نہیں کر سکی۔۔۔۔۔ اس کے اندر موجود مضبوط ماہم ٹکروں میں بکھر گئی تھی۔۔۔ اسے سمیٹنے والا کوئی نہیں تھا۔۔۔ کتنی محنت کی تھی اس نے اس امتحان کو پاس کرنے کے لیے ۔۔۔اس کی ہمت جواب دے گئی تھی۔۔

اسے معلوم تھا کہ اس کی ناکامی کی وجہ صرف انگلش زبان تھی۔۔۔۔ وہ انگلش میں ماہر نہیں تھی۔۔

آنکھوں سے بہتا سمندر اس کے غم کا منہ بولتا ثبوت تھا۔۔۔ خود کو کمرے میں بند کیے وہ وہیں دیوار کے سہارے ٹیک لگائی بیٹھی تھی۔۔

یہ وہ چھبیس سال کی ماہم نہیں تھی جسے خود پر بھروسہ تھا ۔۔جسے یقین تھا اس کی محنت رنگ لائے گی ۔۔۔یہ تو کوئی چھوٹی بچی تھی جو کسی کھلونے کے ٹوٹنے پر آنسو بہا رہی تھی ۔۔۔

رونے کی وجہ سے آنکھیں سرخ پڑ چکی تھی ۔۔۔۔چہرے کا رنگ اڑ سا گیا تھا ۔۔جسم زرد پڑ گیا تھا مانو جسم سے خون ہی ختم ہوگیا ہو ۔۔

چند ہی دنوں میں اس کی حالت اجڑ گئی تھی ۔۔اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ صرف ایک انگلش۔۔ انگلش تو ان کی قومی زبان بھی نہیں مگر وہ انگلش زبان کی وجہ سے مار کھا گئی تھی ۔۔

“یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے؟” اس کو بلکتے دیکھ اس کی ماں کے لہجہ میں تلخی ابھری تھی ۔

“اگر ایک دفعہ ناکام ہوگئی تو اس کا کیا مطلب ہے اگلی دفعہ بھی ناکام ہوجاؤ گی ۔۔۔”

“اتنی جلدی ہمت نہیں ہارتے بیٹا ایک دفعہ ناکام ہوگئی تو کچھ نہیں ہوتا دوبارہ محنت کرو آگے کامیاب ہوجاؤ گی انشاء اللہ۔۔” لہجہ نرم ہوا تھا۔۔ وہ ماں تھی ان کے لیے اپنی بیٹی کی یہ حالت قابلِ قبول نہیں تھی ۔۔۔۔

مگر وہ اس کا بھی تو اعتراف کرتی تھی کہ اس نے بہت محنت کی ہے ۔۔۔۔ وہ ایک انسان تو تھی ۔۔۔اگر انسان ایک دفعہ ناکام ہوجائے تو وہ ہار مان جاتا ہے ۔۔۔۔۔وہ بکھر جاتا ہے اتنی محنت کے باوجود پھل نہ ملنے پر ۔۔۔مگر وہ اپنی بیٹی کو اس حالت میں تو نہیں چھوڑ سکتی تھی ۔۔۔

“امی ! امی” ایک معصوم بچے کی طرح اپنی ماں کے سینے سے لگی تھی “امی میں نے بہت محنت کی تھی ۔۔۔پھر میں کیوں ناکام ہوی ۔۔۔میرا تو امتحان بھی اچھے نمبروں سے پاس ہوا تھا ۔۔۔”ماں کے گلے لگتے ہی اس کے اندر موجود غم پھٹ پھڑا تھا ۔

آج اسے اس کے سوال کا جواب ملا تھا۔

کیا ہم آزاد ہیں ؟ آزادی کیا ہے ؟

“میرے بچے کچھ نہیں ہوتا اگر ایک دفعہ ناکام ہوگئی تو دوبارہ کوشش کرو آگے کامیاب ہوجاؤ گی ۔۔۔۔کامیابی کوششوں سے ہی ملتی ہے ۔۔۔۔۔ناکامی اصل میں کامیابی کی جانب ہمارا اصل قدم ہوتا ہے” ماہم کو سینے سے لگائے وہ ایک چھوٹے بچے کی طرح اسے سمجھا رہی تھی ۔

“اگر میں اس دفعہ بھی ناکام ہوگئی تو ۔۔۔”اس کے دل میں غم گھر کر چکا تھا ۔۔۔اب اس کو ناکامی کا خوف کھانے لگا تھا ۔

“تو دوبارہ محنت کرنا دیکھنا تیسری دفعہ میں کامیاب ہوجاؤ گی ۔۔۔چلو شاباش اب اٹھو منہ ہاتھ دھو اور دوبارہ سے پڑھائی شروع کرو ۔۔۔۔ایک نئے سرے سے محنت کا آغاز کرو۔۔ “ماہم کو اٹھاتی وہ اسے واشروم تک لائی تھی ۔۔

منہ ہاتھ دھو کر وہ ایک نئے عزم کے ساتھ واشروم سے باہر آئی تھی اسے دوبارہ محنت کرنی تھی ۔۔۔بہت محنت ۔۔۔۔وہ سمجھ گئی تھی اپنی ماں کی بات کو ۔۔

ایک دفعہ دوبارہ اس نے بھر پور محنت کی مگر اب کی دفعہ اس نے انگلش پر بھی زور دیا تھا ۔۔۔اس نے عبور حاصل کیا تھا انگلش زبان پر ۔۔۔۔۔امتحان پاس کرنے کے بعد وہ پچھلے مراحل کی طرح اس دفعہ بھی انٹرویو دینے کے لیے انٹرویو حال کے سامنے پہنچی تھی ۔۔

وہی پچھلی دفعہ والا حلیہ سادہ سا ریشمی پاؤں کو چھوتا برقعہ ۔۔۔۔چہرے اور سر کو حجاب تلے ڈھکے ۔۔وہ حال میں داخل ہوی تھی ۔۔۔

آج اس کا کانفیڈینس کم نہیں ہوا تھا ۔۔۔وہ جانتی تھی اسے انگلش زبان پر عبور حاصل ہے ۔۔۔مگر اس کے دل کے کسی کونے میں ایک غم کی لہر تھی ۔۔۔۔

وہ انٹرویو پاس کر چکی تھی ۔۔اسے خوشی تھی کہ وہ آج اپنا خوب پورا کر چکی ہے ۔۔۔لیکن غم شاید خوشی پہ حاوی تھی ۔۔۔ وہ اللہ کی ناشکری نہیں تھی مگر اسے، اسے غم تھا کہ ان کی قومی زبان پر انگلش کو فوقیت دی گئی ۔۔

انعام حاصل کرنے لیے اسے سٹیج پر بلایا گیا تھا لوگوں کے درمیان سے گزرتی وہ سٹیج پر پہنچی تھی ۔۔۔

اپنا انعام حاصل کرنے کے بعد وہ سٹیج سے نیچے اترنے کے لیے پیچھے پلٹی تھی کہ ایک آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی ۔

“آپ کی کامیابی کی وجہ کیا ہے ؟” 

“میں اپنی کامیابی کی وجہ جاننے سے پہلے آپ سب سے ایک سوال کا جواب جاننا چاہوں گی ۔۔” مائیک کو ہاتھ میں پکڑے وہ وہاں بیٹھے سب لوگوں سے مخاطب تھی ۔

“کیا ہم آزاد ہیں ؟” ایک عجیب سا سوال کیا گیا تھا ۔لوگوں کو اس سے اس قسم کے کسی بچوں والے سوال کی توقع نہیں تھی ۔۔۔کیونکہ یہ تو پاکستان کا بچہ بچہ بھی جانتا ہے کہ ہم آزاد ہیں ۔

“ہم آزاد ہیں” وہاں بیٹھے تمام لوگوں نے ایک ساتھ جواب دیا تھا ۔

“ہم آزاد نہیں ہیں !!” ان سب کی بات کی نفی کرتی وہ اپنا جواب پیش کرنے لگی ۔

“میں نے اسی سوال کا جواب جان کر کامیابی حاصل کی ہے کہ کیا ہم آزاد ہیں ؟”

“اور اس سوال کا جواب ہے ہم آزاد نہیں ہیں ۔”

“یہ کیا کہ رہی ہیں آپ” بہت سے لوگوں نے کھڑے ہو کر اس کی مخالفت کی تھی ۔

“ہم آزاد ہیں” ایک طنزیہ مسکراہٹ نے چہرے کا احاطہ کیا تھا

“کہاں آزاد ہیں ہم ؟ 

ہمارے بچوں کو ملک کی ترقی کے لیے کسی بڑے عہدے کے لیے کہاں آزادی ملی ہے ۔

ہمارے نوجوان کیوں شعبوں میں مار کھا جاتے ہیں کیونکہ انہیں انگلش نہیں آتی ۔۔۔ہماری قومی زبان پر انگلش کو فوقیت دی جاتی ہے ۔۔جس ملک کی زبان بیس سے زائد ممالک میں بولی جاتی ہے اس زبان کی کوئی اہمیت نہیں ۔

ہمارے ملک کا بچہ اردو میں غلطی کرے تو وہ شرمندگی محسوس نہیں کرتا ۔۔بلکہ ہنسی مزاق میں بات اڑا دی جاتی ہے ۔۔۔۔اگر کبھی انگلش کا ایک لفظ غلط ہو جائے تو بچے اتنی شرمندگی محسوس کرتے ہیں کہ شرم کے مارے نظریں نہیں اٹھا سکتے ۔۔۔

یہ کہاں کا اصول ہے جو قومی زبان ہو اس کی غلطی مزاق میں اڑا دی جائے جو غیر ملکی زبان ہو اس کی غلطی پر شرمندہ ہوا جائے ۔۔

ہمارے نصاب۔۔۔ہم اپنے نصاب کے لیے بھی انگریزوں کے محتاج ہیں ہمارے بچوں کو انگریزوں کے لیڈرز کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ۔۔ارے بھئی یہ پاکستان  ہے۔۔۔انگریزوں کی پوچا پاٹ کے لیے نہیں بنایا گیا تھا اسلام کے پھیلاؤ کے لیے بنایا گیا تھا اسے ۔۔۔کہاں ہیں ہمارے پیغمبروں کے ۔۔۔ہمارے خلفائے راشدین کے سبق۔۔۔ہمارے قومی ہیروز کے لازوال کارنامے ۔۔۔

نہیں نہیں ہم تو آزاد ہیں یہی کہتے ہیں نہ آپ سب ؟” آنکھوں میں سوال لیے وہ سب سے مخاطب تھی اسے اپنی ناکامی سے اس سوال کا جواب تو ملا تھا کہ آزادی کیا ہے ۔۔۔اور وہ شاید کافی حد تک درست بھی تھی ۔

“ہم آزاد ہیں !! اگر ہم آزاد ہیں تو ہمیں سکرین پر اردو بولتے ہوے شرم کیوں آتی ہے ۔۔۔۔ہمارے انٹرویو آفیسرز نوجوانوں کو اس بات کی بنا پر کیوں نااہل کر دیتے ہیں کہ انہیں انگلش نہیں آتی ۔۔۔ہمارے سارے آرڈرز انگلش میں کیوں لکھے جاتے ہیں ۔۔۔

اگر انگلش اتنی معانی رکھتی ہے تو پاکستان کی قومی زبان بھی انگلش کو بنا دیجیئے ۔۔۔۔”لہجہ سخت ہونے لگا تھا ۔۔اس کے اندر پچھلی دفعہ ناکامی کا جو غم بھرا تھا آج وہ دوسروں میں اس غم کو انڈیل رہی تھی ۔

“میں یہ نہیں کہ رہی کہ انگلش سے منہ پھیر لیا جائے مگر اپنی قومی زبان پر دوسری زبان کو فوقیت دینا یہ تو اپنی زبان سے نا انصافی ہے ۔۔

ہمارا تعلیمی نظام آج بھی لارڈ میکالے کے نظام کے مطابق ہے ۔۔۔مجھے افسوس ہے کہ ہم آزاد نہیں ہیں ۔۔۔۔چودہ آگست کو ہم آزاد ضرور ہوے تھے مگر ظاہری طور پر ۔۔۔ہم ذہنیت سے آج بھی انگریزوں کے غلام ہیں ۔۔۔

مجھے یقین ہے ایک دن ہم یہ روحانی قید بھی ختم کردیں گے ۔۔۔ایک چودہ اگست اور ہماری زندگی میں آئے گی جس میں ہم اپنی اس زہنی قید سے بھی آزاد ہوجائیں گے ۔۔۔”

پورا حال تالیوں سے گونج اٹھا تھا وہ صحیح تو کہ رہی تھی ہم آزاد نہیں ہیں ؟ ہم تو شاید ابھی اس سے بھی ناواقف ہیں کہ آزادی کیا ہوتی ہے ۔۔۔چہرے پہ پھیلے آنسوؤں کو صاف کرتی وہ سٹیج سے نیچے اتری تھی ۔

آج اس کا مقصد پورا ہو تھا نا صرف اس کو بلکہ بہت سے لوگوں کو بھی اس سوال کا جواب ملا تھا کہ کیا ہم آزاد ہیں ؟

 

Welcome to Urdu Novels Universe, the ultimate destination for avid readers and talented authors. Immerse yourself in a captivating world of Urdu literature as you explore an extensive collection of novels crafted by creative minds. Whether you’re seeking romance, mystery, or adventure, our platform offers a wide range of genres to satisfy your literary cravings.

Authors, share your literary masterpieces with our passionate community by submitting your novels. We warmly invite you to submit your work to us via email at urdunovelsuniverse@gmail.com. Our dedicated team of literary enthusiasts will review your submissions and showcase selected novels on our platform, providing you with a platform to reach a wider audience.

For any inquiries or feedback, please visit our Contact Us page here. Embark on a literary adventure with Urdu Novels Universe and discover the beauty of Urdu storytelling

Writer's other novels:


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *